• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 39086

    عنوان: زندگی میں جب باپ ہبہ کرے تو لڑکے اور لڑکی دونوں کو برابر برابر ہبہ کرنا چاہیے

    سوال: نسیم احمد مرحوم کی دو بیویاں تھیں پہلی بیوی سے دو بیٹے تھے اور دوسری بیوی سے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے مرحوم کو اپنی وارثت کی زرعی زمیں کے علاوہ پہلی سسرال میں (سالے سے) اور خود اپنے ننیھال میں (ماموں سے) زرعی زمیں ملی ہوئی تھی. سسرال میں (سالے سے) ملی زمیں کو اپنی ان دو اولاد کے نابالغ ہونے کے باوجود بھی انکے نام منتقل کرواکر اسکا مالکانہ قبضہ دلوا دیا تھا جن دو اولاد کے ننیھال کی یہ زمیں تھی. خود اپنے ننیھال میں (ماموں سے) ملی زمیں کو اپنے ماموں کی وصیت اور اولاد میں زمینوں کا تناسب متوازن رکھنے کی غرض سے دوسری بیوی کے تین بیٹوں کواپنی موجودگی میں ہی حبہ کرکے اسکا مالکانہ قبضہ دلوا دیا تھا. وارثت کی زمیں کو جیوں کا تیوں ورثا میں تقسیم کے لئے چھوڑ دیا جس طریقے سے انکو اپنے آباء سے موصول ہوئی تھی. علماے دین سے میرا یہ سوال ہے کہ کیا مرحوم کا اپنے ننیھال میں (ماموں سے) ملی زمیں کو اولاد میں زرعی زمینوں کی مساویت کی غرض سے دوسری بیوی کے تین بیٹوں حبہ کر کے اسکا مالک بنا دینا کسی شرعی جرم کی حدود میں تو نہیں آتا؟؟ براے کرم شرعی جواب دے کر ہماری رہنمائی فرما دیں. اجمل

    جواب نمبر: 39086

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1244-2010/B=7/1433 یہ کوئی شرعی جرم نہیں، یہ تو نسیم احمد مرحوم نے بہت ہی اچھا کیا کہ اپنی تمام اولاد کو خواہ وہ پہلی بیوی سے ہو یا دوسری بیوی سے ہرایک کو برابر زمین ہبہ کی، ہاں اس میں تھوڑی کمی رہ گئی وہ کہ جتنا جتنا حصہ سب لڑکوں کو دیا ہے اتنا ہی حصہ اپنی لڑکی کو بھی دینا چاہیے، زندگی میں جب باپ ہبہ کرے تو لڑکے اور لڑکی دونوں کو برابر برابر ہبہ کرنا چاہیے۔ حدیث شریف میں آیا ہے: سووا بین أولادکم في العطیة․


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند