• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 36909

    عنوان: بیوہ کے علاوہ ورثہ میں زید کے دوبھائی اور تین بہنیں ہیں

    سوال: (۱) کچھ مہینے قبل زید کا انتقال ہوگیا ۔ دہلی میں اس کا ایک مکان تھا جس میں وہ اپنی بیوی کے ساتھ رہتاتھا، اس کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ (۲) زیدکی بیوہ نے زید کے بھائی بہنوں کو کہا کہ زید اپنے اس مکان کو ایک بھائی کو دینے کے بارے میں کہا کرتے تھے اور وجہ یہ بتارہے تھے کہ اس بھائی نے کافی عرصے تک اس کی (زید )مالی مدد کی ہے۔ کچھ فیملی ممبران نے کہا کہ یہ وصیت /ارادہ ہبہ با لعوض ہے، اس لیے اس کو قبول نہیں کیاگیا۔ (۳) بیوہ کے علاوہ ورثہ میں زید کے دوبھائی اور تین بہنیں ہیں۔ (۴) مکان کے سلسلے میں دورائیں سامنے آئی ہیں۔ (الف) شریعت کے مطابق یہ مکان بیوہ ، دونوں بھائی اور تینوں بہنوں کا ہے ، اس لیے جائداد کے کاغذات سب کے نام ہونے چاہئے۔ (ب) مکان سوفیصد بیوہ کا ہے۔ تمام بھائی بہنوں کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے، اس لئے اس کے تمام کاغذات صرف بیوہ کے نام ہونے چاہئے۔ اگر ایساہے تو کیا یہ شریعت کے مطابق درست ہے؟اس مکان میں بیوہ کا کیا حق ہے، بیچنے ، تحفہ میں دینے اور وصیت کے حوالے سے؟بیوہ کے مرنے کے بعد مکان کس کو ملے گا؟ براہ کرم، اس بارے میں اپنی رائے عالی سے مطلع فرمائیں۔

    جواب نمبر: 36909

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ل): 383=219-3/1433

    صورت مسئولہ میں زید کے انتقال ہوتے ہی زید کے مکان میں اس کے جملہ ورثاء (بیوی، دو بھائی اور تین بہنوں) کا حق متعلق ہوگیا، اس لیے اب بہتر صورت یہی ہے کہ اس مکان کی تقسیم حسب شرح زید کے ورثاء کے درمیان کردی جائے، اگر زید کے ورثاء میں مذکورہ بالا افراد ہی ہیں تو زید مرحوم کا تمام ترکہ 28 حصوں میں منقسم ہوکر 7حصے بیوی کو 6-6حصے دونوں بھائیوں میں سے ہرایک کو، اور 3-3 حصے تینوں بہنوں میں سے ہرایک کو ملیں گے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند