معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 32388
جواب نمبر: 3238801-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ھ): 1125=710-6/1432 آپ تمام ورثہ پہلے والد مرحوم کے کل ترکہ کو تقسیم کرکے ہرایک کا حصہٴ شرعیہ اس کے قبضہ میں دیدیں اس کے بعد حج، مکان، شادی سے متعلق معلومات کرنے کے لیے دوبارہ سوال کریں۔ بعد ادائے حقوق متقدمہ علی المیراث وصحتِ تفصیل ورثہ والد مرحوم کا کل مالِ متروکہ (جی پی فنڈ انعام ودیگر املاک) اڑتالیس (48)حصوں پر تقسیم کرکے چھ (6)حصے مرحوم کی بیوی (آپ کی والدہ) کو اور چودہ چودہ (14-14)حصے دونوں بیٹوں کو اور سات سات (7-7)حصے دونوں بیٹیوں کو ملیں گے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
مشترکہ فیملی میں اکثر یہ باتیں ہوتی رہتی ہیں کہ باپ کی زندگی میں جو بھی زمین، دکان یا مکان خریدا جاتا ہے اور باپ کی زندگی ہی میں بڑا بیٹا اپنے نام رکھے اور باپ کے وصال کے بعد وہ دوسرے بھائیوں سے یہ کہے کہ یہ سب تو میرا ہے میرے پیسوں سے خریدا گیا ہے۔ او رجب کہ گھر میں سارے ہی لوگ (باپ اور سات بھائی) ماں کو مہینے کی تنخواہ دیتے تھے تو کیا اس کا یہ مطالبہ جائز ہے؟ اور جو سب سے چھوٹا بیٹا ہے اس کا کیا، کیوں کہ بڑے اور چھوٹے بیٹے کے درمیان اٹھارہ سے بیس سال کا وقفہ ہے؟ اس میں سے اس نے ایک زمین بیچ دی ہے اور اب اس سے ایک مکان اور خرید کر اسے کرایہ پر دے دیا ہے۔ تو اب اس کا کیا ہوگا؟
4435 مناظرایک بیوی، ایک بیٹی اور ایک بیٹے کے درمیان وراثت کی تقسیم
2072 مناظرمیرا سوال ہبہ کے تعلق سے ہے۔ کیا شریعت نے خود کی اولاد کواپنی زندگی ہی میں حصہ کی اجازت دی ہے، جب کہ ایک شخص کی جملہ دس اولادیں ہیں، چھ لڑکیاں اور چار لڑکے۔ یہ دس بچے دو بیویوں سے ہیں۔ پہلی بیوی سے آٹھ بچے ہیں جن میں چھ لڑکیاں اور دو لڑکے شامل ہیں جب کہ دوسری بیوی سے دو لڑکے ہیں۔ پہلی بیوی کے بچے دوسری بیوی کے بچوں سے املاک کی تقسیم کے تعلق سے بہت ہی ناروا سلوک کرتے ہے۔ اس شخص کے انتقال کو سولہ سال ہوچکے ہیں ،لیکن ابھی تک جائیداد کی تقسیم نہیں ہوئی۔ پہلی بیوی جس کا انتقال ابھی تین سال پہلے ہوا اور یہ بیوی ایک طرح سے مختار کل تھی اوراس کی مرضی کی وجہ سے ہی جائیداد کی تقسیم نہیں ہوسکی۔ جملہ جائیداد میں دو فلیٹ اور کاروبار ہیں۔ پہلی بیوی کے دو لڑکوں میں سے چھوٹے لڑکے کو ہبہ کے ذریعہ ایک فلیٹ اور کاروبار دئے جانے کی بات کی جاتی ہے او رقانونی اعتبار سے ایک فلیٹ اورکاروبار پہلی بیوی کے چھوٹے لڑکے نے اپنے نام کرلیا ہے اوراس کام کو بھی بہت عرصہ گزر چکا ہے۔ چھوٹا بیٹا کاروبار میں سے اپنی خود کی ماں کو باپ کے انتقال کے بعد اخراجات کے لیے اچھی رقم دے دیا کرتا تھا اوردوسری بیوی کے ایک لڑکے کو ایک وقت تک قلیل رقم ہر مہینہ دیتا تھا۔ لیکن جب سے اس نے خود کے لڑکے کی شادی کی اس وقت سے اس نے اپنے چھوٹے بھائی کوجو کہ اپنی ماں کے ساتھ الگ رہتا تھا ایک طرح سے رقم دینا بند کردیا۔ میں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا کوئی شخص اپنے دس بچوں کی موجودگی میں کسی ایک بچے کو ہبہ کے ذریعہ جائیداد کا اچھا خاصا حصہ دے سکتا ہے؟ کیا شریعت نے اسے ایسا کرنے کی اجازت دی ہے؟ ہبہ کے ذریعہ جس کو پہلی بیوی کے چھوٹے بیٹے کے نام کرنے کی جو بات کی جاتی ہے وہ اصل جائیداد کا بڑا حصہ ہے۔ برائے مہربانی ہبہ کے بارے میں شریعت کے احکام اسسوال کی روشنی میں تفصیلی طور پر بتائیں۔
4143 مناظر