• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 31251

    عنوان: تقسیم وراثت

    سوال: وراثت سے متعلق سوال ہے ۔ 1984/ میں والد کا انتقال ہوگیاتھا۔ہم دو بھائی دو بہنیں اور والدہ ہیں ۔ والد کے انتقال سے قبل ایک بہن کی شادی ہوچکی تھی ، وہ ہمارے ساتھ نہیں رہ رہتی تھی، اس وقت میں نے اسے تقسیم وراثت کے لیے کہا تو اس نے کہا تھا کہ اس وقت ابھی اسکی ضرورت نہیں ہے۔ اب وہ کہہ رہی ہے کہ مجھے وراثت چاہئے۔ اس وقت والد صاحب کی ایک دکان تھی مارکیٹ میں ، وہ دکان میرے قبضہ میں ہے، میں اس کا کرایہ وصول کرتاہوں، ایک گھر تھا جسے 1987/میں نے 175000,00/ میں بیچ دیاتھا نیز والد صاحب کے پاس 350000,00/ کرات تھے جس سے میں بزنس کررہا ہوں۔ براہ کرم، بتائیں کہ کتنا حصہ مجھے دینا ہے؟اس وقت کی پوزیشن کے حساب سے دوں یا پہلے کی پوزیشن کے حساب سے دینا ہوگا؟والدہ حیات ہیں اور میرے ساتھ رہتی ہیں۔ وراثت کی تقسیم کے بارے میں وضاحت فرمائیں۔

    جواب نمبر: 31251

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(د): 659=80-4/1432 شادی شدہ بہن کے یہ کہہ دینے سے ”کہ اس کی ضرورت نہیں ہے“ ان کا حق وراثت ختم نہیں ہوا بلکہ علی حالہ برقرار ہے۔ والد صاحب کی کل اشیاء اور نقد روپئے وغیرہ کے حقوق مقدمہ علی الارث کی ادائیگی کے بعد اڑتالیس حصے کیے جائیں گے چھ حصہ بیوی کو چودہ چودہ حصے دونوں بیٹوں کو سات سات حصہ دونوں بیٹیوں کو ملے گا۔ ان کی مملوکہ اشیاء جس حالت میں اور جس قیمت کی اس وقت موجود ہیں اسی موجودہ حالت و مالیت میں وراثت تقسیم ہوگی۔ جو مکان فروخت کردیا کیا اگر بہن کی اجازت فروختگی میں شامل تھی تو ملنے والی قیمت میں ان کو حصہ ملے گا بقیہ ترکہ میں ہرایک کا حصہ لگاکر اس کے قبضہ وتصرف میں دیدیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند