• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 29359

    عنوان: ہم لوگ۸ بھائی اور ۲ بہیں ہیں۔سب کی شادی ہو چکی ہے۔میرے والد محترم کا انتقال پچھلے سال می میں ہوا تھا اور میری والدہ الحمدلللہ ابھی با حیات ہیں۔قریب دیڑھ سال پہلے، وفات سے قبل میرے والد نے ہم دو بہنو کو ایک ایک چھوٹا سا فلیٹ بطور تحفہ دیا ۔ہم دونو بہنو کی شادی کو ۱۴-۱۵ سال ہو گئے ہیں۔اور ان فلیٹو کی تعمیر ہمارے بھی ہی کر رہے تھے جو فلیٹ بنا کر بچتے ہیں۔میرے والد نے ان فلیٹو کی پوری قیمت اپنی زندگی میں ہی ادا کر دی تھی۔مگر میرے بھائی نے یہ فلیٹ ہمارے نام نہیں کے اور کیسے نے پوچھا بھی نہیں کیونکی گھر کا معاملہ تھا۔یہ بات سب بھی بہنو کے علم میں تھی اور کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا جب تک والد صاھب با حیات تھے، ان کی وفات کے بعد تین بھی ان کے اس فیصلے کے خلاف ہو گئے اور یہ الزام تہمت لگائی کے انہونے غلط کام کیا لحاظہ ساری جیداد میں ان فلیٹو کو بھی شامل کر کے تقسیم کیا جایگا۔باقی ۵ بھائی نے والد کے فیصلے کا احترام کیا مگر ۳ بھائیوں کی زد اور دباؤ میں آکر ان فلیٹو کو کل جائیداد میں شامل کر کے سب شریکوں میں بانٹ دیا جس میں بہنے اور والدہ بھی شامل ہیں۔ مگر ۵ بھائیوں نے یہ فیصلہ بھی کیا کی وہ ان فلیٹو کی قیمت میں سے اپنا حصّہ واپس بہنو کو دے دینگے کیونکی یہ والد کے فیصلے کی نافرمانی ہے۔کیونکی ۳ بھائیوں نے ہمارے والد مرحوم کی وفات کے بعد ان پر الزام لگایا کی انہونے غلط کام کیا اس سے ہم بہنوں ہماری والدہ اور کچھ بھائیوں کو تکلیف پہنچی۔میری دلچسپی فلیٹ میں نہیں ہے مگر میرا سوال یہ ہے کی کون غلط ہے میرے وہ تین بھی جو والد کی حیات میں تو چپ رہے مگر اب ان کی وفات کے بعد ان کو اعتراض ہو رہا ہے یا میرے والد کا فیصلہ۔دوسرا سوال یہ ہے کی پورے جائیداد کے معاملے میں ہم بہنوں وہ ہماری ماں کو شامل نہیں کیا گیا نہ ہی کوئی مشورہ کیا گیا اور ہم کو فیصلی کی اتتلہ بھی بعد میں ملی۔دلیل یہ دی گی کی اسلام میں عورتوں کو فیصلے میں شامل نہیں کیا جاتا۔کیا یہ بات صحیح ھے اس طویل سوال کے لئے میں معافی چاہتی ہوں اور جواب کی منتظر ہوں۔

    سوال: ہم لوگ۸ بھائی اور ۲ بہیں ہیں۔سب کی شادی ہو چکی ہے۔میرے والد محترم کا انتقال پچھلے سال می میں ہوا تھا اور میری والدہ الحمدلللہ ابھی با حیات ہیں۔قریب دیڑھ سال پہلے، وفات سے قبل میرے والد نے ہم دو بہنو کو ایک ایک چھوٹا سا فلیٹ بطور تحفہ دیا ۔ہم دونو بہنو کی شادی کو ۱۴-۱۵ سال ہو گئے ہیں۔اور ان فلیٹو کی تعمیر ہمارے بھی ہی کر رہے تھے جو فلیٹ بنا کر بچتے ہیں۔میرے والد نے ان فلیٹو کی پوری قیمت اپنی زندگی میں ہی ادا کر دی تھی۔مگر میرے بھائی نے یہ فلیٹ ہمارے نام نہیں کے اور کیسے نے پوچھا بھی نہیں کیونکی گھر کا معاملہ تھا۔یہ بات سب بھی بہنو کے علم میں تھی اور کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا جب تک والد صاھب با حیات تھے، ان کی وفات کے بعد تین بھی ان کے اس فیصلے کے خلاف ہو گئے اور یہ الزام تہمت لگائی کے انہونے غلط کام کیا لحاظہ ساری جیداد میں ان فلیٹو کو بھی شامل کر کے تقسیم کیا جایگا۔باقی ۵ بھائی نے والد کے فیصلے کا احترام کیا مگر ۳ بھائیوں کی زد اور دباؤ میں آکر ان فلیٹو کو کل جائیداد میں شامل کر کے سب شریکوں میں بانٹ دیا جس میں بہنے اور والدہ بھی شامل ہیں۔ مگر ۵ بھائیوں نے یہ فیصلہ بھی کیا کی وہ ان فلیٹو کی قیمت میں سے اپنا حصّہ واپس بہنو کو دے دینگے کیونکی یہ والد کے فیصلے کی نافرمانی ہے۔کیونکی ۳ بھائیوں نے ہمارے والد مرحوم کی وفات کے بعد ان پر الزام لگایا کی انہونے غلط کام کیا اس سے ہم بہنوں ہماری والدہ اور کچھ بھائیوں کو تکلیف پہنچی۔میری دلچسپی فلیٹ میں نہیں ہے مگر میرا سوال یہ ہے کی کون غلط ہے میرے وہ تین بھی جو والد کی حیات میں تو چپ رہے مگر اب ان کی وفات کے بعد ان کو اعتراض ہو رہا ہے یا میرے والد کا فیصلہ۔دوسرا سوال یہ ہے کی پورے جائیداد کے معاملے میں ہم بہنوں وہ ہماری ماں کو شامل نہیں کیا گیا نہ ہی کوئی مشورہ کیا گیا اور ہم کو فیصلی کی اتتلہ بھی بعد میں ملی۔دلیل یہ دی گی کی اسلام میں عورتوں کو فیصلے میں شامل نہیں کیا جاتا۔کیا یہ بات صحیح ھے اس طویل سوال کے لئے میں معافی چاہتی ہوں اور جواب کی منتظر ہوں۔

    جواب نمبر: 29359

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ھ): 243=71-2/1432

    (۱) آپ کے والد مرحوم نے جو دو فلیٹ بدرستی ہوش وحواس اپنی زندگی میں آپ دونوں کو دیدیے اور آپ دونوں بہنوں (مرحوم کی بیٹیوں) کا قبضہ ان پر ہوگیا تو آپ ان فلیٹ کی مالک ہوگئیں، والد مرحوم کی وفات پر وہ دونوں فلیٹ ایسی صورت میں والد مرحوم کے ترکہ میں شامل نہ ہوں گے۔ والد محروم کی وفات پر وہ دونوں فلیٹ ایسی صورت میں والد مرحوم کے ترکہ میں شامل نہ ہوں گے اور نہ ہی مرحوم کے بیٹوں کا ان پر اب کچھ حق وحصہ ہے، بلکہ آپ دونوں ہی ان فلیٹ کی مالک ہوں گی اور والد مرحوم کے ترکہ میں سے آپ دونوں بہنوں کاکچھ حق وحصہ شرعاً کم نہ ہوگا، آپ کے بھائی (مرحوم کے بیٹے) والد مرحوم پر جو الزام لگاتے ہیں وہ بھی غلط ہے، اور تقسیم ترکہ کی جو صورت اختیار کی وہ بھی صحیح نہیں کی، صحیح تقسیم واجب ہے۔
    (۲) یہ دلیل کہ ”اسلام میں عورتوں کو فیصلہ میں شامل نہیں کیا جاتا“اھ یہ دلیل نہیں بلکہ قولِ بلا دلیل کے قبیل سے ہے، ان پر واجب ہے کہ والد مرحوم کا ترکہ والدہ صاحبہ اور بہنوں کوعمل تقسیم وراثت وترکہ میں شامل کرکے تقسیم کریں تاکہ بعد میں شکوک وشبہات کا موقعہ نہ رہے اور آپس میں ایک دوسرے سے نزاع اور خلفشار کا اندیشہ بھی ختم ہوجائے اور بہتر ہے کہ مقامی ایک دو علمائے کرام اصحابِ فتویٰ حضرات کو بھی تقسیم کے وقت شریک کرلیں تاکہ شریعت مطہرہ کے اصول وفروعِ وراثت کے پیش نظر غلطی سے تحفظ ہوجائے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند