• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 28332

    عنوان: میراث سے متعلق سوال ہے۔ میرے والدین ابھی حیات ہیں، میرے ایک بڑے بھائی اور ایک بڑی بہن ہیں، ہم تینوں کی شادی ہوچکی ہے۔ 1500/ اسکوائر فٹ میں ہمارے والد کا گھرہے، جس کی آج کی قیمت 60 / لاکھ روپئے ہیں، اس گھر میں میں ، والدین اور بڑے بھائی رہتے ہیں۔ میرے والد چاہتے ہیں کہ ان کی حیات میں اس گھر کو تقسیم کیا جائے ، ہم تینوں بھائی بہن ، ابا جان اور بہنوئی نے باقاعدہ سوروپئے کا اسٹیمپ پیپر پر دستخظ کرکے ابا جان کی وصیت کو نوٹری کرالیا، اس میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ بہن کو ایک سال کے اندر سات لاکھ روپئے دیں گے اور والد کے مرنے کے بعد بہن کا کوئی حصہ اس گھر میں نہیں ہوگا۔ براہ کرم، بتائیں کہ کیا ہم لوگوں کا ایسا کرنا صحیح ہے؟ یا بہن کو اور روپئے دینے ہوں گے؟

    سوال: میراث سے متعلق سوال ہے۔ میرے والدین ابھی حیات ہیں، میرے ایک بڑے بھائی اور ایک بڑی بہن ہیں، ہم تینوں کی شادی ہوچکی ہے۔ 1500/ اسکوائر فٹ میں ہمارے والد کا گھرہے، جس کی آج کی قیمت 60 / لاکھ روپئے ہیں، اس گھر میں میں ، والدین اور بڑے بھائی رہتے ہیں۔ میرے والد چاہتے ہیں کہ ان کی حیات میں اس گھر کو تقسیم کیا جائے ، ہم تینوں بھائی بہن ، ابا جان اور بہنوئی نے باقاعدہ سوروپئے کا اسٹیمپ پیپر پر دستخظ کرکے ابا جان کی وصیت کو نوٹری کرالیا، اس میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ بہن کو ایک سال کے اندر سات لاکھ روپئے دیں گے اور والد کے مرنے کے بعد بہن کا کوئی حصہ اس گھر میں نہیں ہوگا۔ براہ کرم، بتائیں کہ کیا ہم لوگوں کا ایسا کرنا صحیح ہے؟ یا بہن کو اور روپئے دینے ہوں گے؟

    جواب نمبر: 28332

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ب): 115=107-1/1432

    یہ وراثت کا مسئلہ نہیں ہے، اس لیے کہ وراثت کی تقسیم آدمی کے مرنے کے بعد ہوتی ہے، اس سے پہلے نہیں، یہ وصیت کا مسئلہ ہے اور وارثوں کے لیے وصیت جائز نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وارثوں کے لیے وصیت کرنے سے منع فرمایا ہے: عن ابن عباس رضي اللہ عنہ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: لا وصیة لوارث (مشکاة: ۲۶۵) اس لیے آپ کے والد صاحب کا اپنی اولاد کے لیے وصیت کرنا اور آپ لوگوں کا وصیت نامہ بنوانا درست نہیں۔
    اگر آپ کے والد صاحب اپنی زندگی میں اپنی جائداد وغیرہ کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں تو ان کو چاہیے کہ لڑکی اور لڑکوں کے درمیان برابر برابر تقسیم کریں، اور ہرشخص کو اس کے حصے کا مالک مختار بناکر خود اس سے دست بردار ہوجائیں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی میں جائیداد وغیرہ اولاد کے درمیان تقسیم کرنے والوں کو برابر کرنے کا حکم دیا ہے: فاتقوا اللہ واعدلوا بین أولادکم (مشکاة: ۲۶۱) اور سووا بین أولادکم في العطیة (الحدیث)
    البتہ اگر وہ لڑکی اور لڑکوں کو برابر برابر حصہ نہ دینا چاہیں بلکہ لڑکوں کو زیادہ اور لڑکی کو کم دینا چاہیں (جیسا کہ آپ نے لکھا ہے) تو بھی درست ہے، مگر خلاف سنت ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند