• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 2725

    عنوان: تین بیٹیاں، ایک بیٹے  اور ایک بیوی  کے درمیان تقسیم وراثت

    سوال:

    تقسیم وراثت کے بارے میں بتائیں۔ میری تین بیٹیاں، ایک بیٹے  اور ایک بیوی ہیں۔ روپئے، کار، سونا، دوسری چیزیں، پرانے اور نئے کپڑے ، برتن اور دیگر قابل استعما ل آئٹم کی تقسیم کیسے کی جائے گی؟ کیا مجھے زکاة دینی ہوگی؟ برا ہ کرم، تقسیم کا طریقہ بتائیں۔

    جواب نمبر: 2725

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 71/ د= 71/ د

     

    کسی شخص کے انتقال کے بعد اس کی وراثت تقسیم ہوتی ہے نیز انتقال کے وقت جو ورثہ شرعی موجود (باحیات) رہتے ہیں ان کو وراثت ملتی ہے۔ کسی کی زندگی میں اس کی وراثت تقسیم نہیں ہوتی۔ ہاں اگر کوئی شخص اپنی اولاد کو زندگی میں دینا چاہے تو یہ ہبہ کہلاتا ہے۔ زندگی میں آدمی اپنی مملوکہ جائداد و اشیاء کا خود مالک ہوتا ہے، اگر وہ اپنی اولاد کو اپنی زندگی ہی میں ہبہ کرنا چاہتا ہے تو اولاد کے درمیان (لڑکے اور لڑکیوں) کے مابین برابری کا حکم ہے، یعنی جس قدر ایک لڑکے کو دے اتنا ہی لڑکی کو بھی دے۔ بلاوجہ شرعی کے کم و بیش کرنا درست نہیں ہے۔ اور جو کچھ دینا چاہے اس کو ہبہ کرکے قبضہ تامہ و دخل بھی دیدے۔

    (۲) سونے چاندی نقد روپئے اور تجارت کا سامان اگر ہو تو اس پر زکاة واجب ہوتی ہے۔ ان میں سے کوئی ایک اور اگر سب چیز تھوڑی تھوڑی ہے تو سب کی قیمت مل کر ساڑھے باون (52.5)تولہ چاندی، یا ساڑھے سات (7.5)تولہ سنا کے برابر ہوجاتا ہے تو سال گذرجانے کے بعد اس کا چالیسواں (2.5%)حصہ زکاة میں دینا فرض ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند