عنوان: میرے والد صاحب کو کسی نے 3000/ روپئے ہدیہ دیا تھا ، لیکن والد صاحب میرے ساتھ ہی رہتے تھے اور ان کے خرچ کی ذمہ داری میرے سپر د تھی ۔ والد صاحب کا انتقال ہوگیاہے، اور وہ پیسے میرے ہی پاس رہ گئے، کیا میں ان پیسوں کو استعمال کروں یا خیرات کردوں؟ میری خواہش ہے کہ میں ان پیسوں کو استعمال کروں؟ان کے پیسوں میں برکت کی نیت سے، کچھ اور نہیں؟براہ کرم، مشورہ دیں۔
سوال: میرے والد صاحب کو کسی نے 3000/ روپئے ہدیہ دیا تھا ، لیکن والد صاحب میرے ساتھ ہی رہتے تھے اور ان کے خرچ کی ذمہ داری میرے سپر د تھی ۔ والد صاحب کا انتقال ہوگیاہے، اور وہ پیسے میرے ہی پاس رہ گئے، کیا میں ان پیسوں کو استعمال کروں یا خیرات کردوں؟ میری خواہش ہے کہ میں ان پیسوں کو استعمال کروں؟ان کے پیسوں میں برکت کی نیت سے، کچھ اور نہیں؟براہ کرم، مشورہ دیں۔
جواب نمبر: 2704330-Aug-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(م): 1601=1601-11/1431
صورتِ مسئولہ میں وہ پیسے والد صاحب مرحوم کا ترکہ بن گئے، اس میں آپ کا بھی حق ہے اور آپ کے علاوہ دوسرے شرعی ورثہ کا بھی حصہ ہے، جس وارث کا جتنا حق بنتا ہو، اس کو بانٹ دینا چاہیے، اور جو آپ کے حصے میں آئے اس کو اپنے استعمال میں صرف کرسکتے ہیں، اگر والد صاحب کے تنہا وارث آپ ہی ہیں تو ان پیسوں کو تنہا استعمال کرسکتے ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند