معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 24497
جواب نمبر: 2449701-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(د): 1235=982-9/1431
وراثت مرنے کے بعد ہی تقسیم ہوتی ہے، زندگی میں دینا ہبہ کہلاتا ہے، اگر شخص مذکور کے انتقال کے وقت مذکور فی السوال ورثاء باحیات رہے تو اس کا ترکہ حقوق مقدمہ علی الارث کی ادائیگی کے بعد ایک سو چوالیس حصوں میں منقسم ہوکر چوبیس چوبیس (24,24)حصے والدین کو،اٹھارہ (18)حصہ بیوی کو، چھبیس چھبیس (26,26)دونوں لڑکوں کو، تیرہ تیرہ (13,13)حصہ دونوں لڑکیوں گو ملے گا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
میرا نام محمد ہارون ہے، میری بیوی کا نام ہاجرہ خاتون ہے جن کے پہلے شوہر کا ایک موٹر ایکسیڈینٹ میں انتقال ہوگیاتھا۔ ایکسیڈینٹ کے معاوضہ کے طورپر ٹرک کی انشورنس کی کمپنی جو مرنے والے کو پیسے دیتی ہے، اسی میں سے ہاجرہ کو 100000/ روپئے ملے( کورٹ سے مقدمہ چلانے کے بعد)شوہر کے انتقال کے وقت اس کے چھ مہینے کی ایک بیٹی صائمہ تھی ، لیکن انہوں نے کورٹ میں اس لڑکی کے بارے میں نہیں بتا یا تھا۔ اب شادی کے بعد میں نے ان پیسوں سے ہاجرہ کے نام سے ایک فلیٹ خریدا ہے ، اس میں میں نے بھی اپنے پیسے لگائے ہیں، ہاجرہ کے پہلے شوہر کی بیٹی میرے ساتھ ہی ہتی ہے، اور اس کی تعلیم کا خرچ اور دیگر اخراجات میں ہی اٹھاتاہوں، اور ان شاء اللہ اس کی شادی بھی اپنی بیٹی ہی طرح کراؤں گا۔
میری سہیلی وصیت کرنا چاہتی ہے، اس کے صرف بھائی اور بہن ہیں، وہ استپال میں ہے اور زندگی کی کوئی امید نہیں ہے۔ وہ جائداد تقسیم کرنا چاہتی ہے.
1454 مناظرہم سات بھائی اورتین بہنیں ہیں۔ ہمارے والد صاحب کا انتقال جنوری 1970 میں ہوا۔ دوسرے اثاثہ کے علاوہ ہمارے والد صاحب نے سونے سے لکھاہوا ایک قرآن شریف چھوڑا جو کہ چار سوسال پرانااور بہت ہی قیمتی ہے۔ قرآن شریف ہماری ماں کی تحویل اور حفاظت میں تھا۔ ہمارے والد صاحب نے کوئی وصیت نہیں چھوڑی۔ پندرہ سال پہلے ہماری ایک بہن جو کہ لندن میں رہتی ہے انڈیا آئی اس نے میری ماں کو یقین دلایا اور اکسایا کہ وہ اس کو قرآن دے دے دوسرے بھائی اوربہنوں کی رضا، اجازت اور علم کے بغیر۔ جب ہمارے دوسرے بھائی اور بہنوں کو معلوم ہوا کہ ہماری بہن قرآن شریف لندن لے کر چلی گئی ہے بغیر ان کی رضا و رغبت کے تو انھوں نے اس پر اعتراض کیا، کیوں کہ قرآن مجید ہمارے مرحوم والد صاحب کی ملکیت تھی اوران کے انتقال کے بعد یہ ہمارے مرحوم والد صاحب کے وارثین کی اجتماعی ملکیت بن گیا اورہماری بہن اس کو ہماری رضامندی کے بغیر نہیں لے جاسکتی ہے۔ہماری ماں نے ہماری بہن سے کہا کہ اس نے جو قرآن شریف اس کو پندرہ سال پہلے دیا تھا وہ اس کے وارثوں کو واپس کردے ۔ اوروہ بہت زیادہ بحث و مباحثہ کے بعد تیار ہوئی لیکن اب تک اس نے قرآن شریف کو ہمیں واپس نہیں کیا ہے۔ ہماری ماں کا انتقال گیارہ سال پہلے ہوچکا ہے۔ اب ہمارے کچھ بھائی اور بہن کی یہ رائے ہے کہ اگر کوئی شخص لندن میں قرآن شریف کولینے میں دلچسپی رکھتا ہے اور اس کے لیے اچھا ہدیہ پیش کرتا ہے تو ہم یہ قرآن شریف ہدیہ کے طور پر اس کو دے سکتے ہیں اور یہ رقم شریعت کے مطابق تمام بھائی اور بہنوں کو تقسیم کردیں گے۔ ذیل میں چند سوالات ہیں ان کے بارے میں اپنی رائے دیں: (۱) کیا یہ قرآن شریف ہدیہ(قیمتا) کے بدلہ میں دینا جائز ہے؟ یہ بات ذہن نشیں رہے کہ یہ قرآن ہاتھ سے اور سونے سے لکھا ہوا ہے اور چار سو سال پرانا ہے۔ (۲)ہماری بہن نے گزشتہ تیرہ سال سے وعدہ کے باوجود وہ قرآن شریف وارثوں کو واپس نہیں کیا ہے۔ اس کو شرعی قانون کے مطابق کیا کرنا چاہیے؟ (۳) اگر کچھ بھائی اور بہن یہ چاہتے ہوں کہ اس کو ہدیہ (قیتا) کے طورپر دے دیں اورکچھ بھائی اور بہن چاہتے ہوں کہ اس کو رکھے رہیں تو اس بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟ لندن میں ایک نیلامی کمپنی ہے جو کہ قرآن شریف میں دلچسپی رکھتی ہے۔ برائے کرم تینوں سوالوں کے جواب عنایت فرماویں۔
2171 مناظرجناب
ہم 5پانچ بھائی اور 5 بہنیں ہیں، والد صاحب کا انتقال ہوچکا ہے، والد صاحب کی
جائیداد کی مالیت 100000000روپئے بنتی ہے، برائے مہربانی اس کی تقسیم فیصد میں
بتادیجیے، شکریہ
میرا
سوال وراثت سے متعلق ہے۔ ہم چار بھائی اور تین بہنیں ہیں او رہماری ماں کوہمارے
والد صاحب کی طرف سے ایک پراپرٹی وراثت میں ملی، ہم اس کو ?پراپرٹی الف? کہتے ہیں۔بھائی
لوگ اس الف پراپرٹی کو اپنی رہائش کے طور پر استعمال کررہے ہیں اور بہنیں شادی شدہ
ہیں۔ بھائیوں کی ایک دوسری جگہ پر اپنی ذاتی پراپرٹی ہے جن کو ہم? پراپرٹی ب? کہتے
ہیں جو کہ وراثت میں نہیں ملی تھی بلکہ اس کو انھوں نے خریدا تھا۔بہنیں ایک معاہدہ
پر متفق ہوگئیں کہ وہ پراپرٹی الف کو صرف بھائیوں کے درمیان تقسیم کرنے کے لیے
چھوڑ دیں گیں اور اپنا حصہ پراپرٹی ب سے لیں گیں جو کہ بھائیوں کی ملکیت میں ہے۔ یہ
بھائیوں کے لیے بھی معقول ہے۔ دونوں پراپرٹی کی مالیت جائے وقوع کے مختلف ہونے کی
وجہ سے بالکل یکساں نہیں ہے۔ کیا یہ معاہدہ قابل قبول ہے؟