• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 23783

    عنوان: میرا مسئلہ یہ ہے کہ ہم دو اور چار بہنیں ہیں، سب ہمارے والد کی دوسری بیوی کی اولاد ہیں، میرے والد کی پہلی بیوی کا بچہ کی ولادت کے وقت انتقال ہوگیا تھا، ان سے لڑکا ہوا تھا ، اسے میرے والد نے اپنے بھائی کو دیدیا تھا، جو اب تک ان (چچا) کی کفالت میں ہی تھا، اب وہ چچا اور چچی بھی وفات پاچکے ہیں اور میرے والد کا بھی انتقال ہوگیاہے،اب ہم یعنی ہماری ماں، دو بھائی اور چار بہنیں اور ایک سوتیلا بھائی ہیں۔ والد کی وراثت میں ہم سب کس طرح حصہ پائیں گے؟ یہاں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ پہلی بیوی کی اوالاد یعنی ایک لڑکا کووالد کی وراثت میں آدھا حصہ ملنا چاہئے ، ان کا کہناہے کہ ہندوستانی حکومت کا قانون کے حساب سے ایک بیوی اور اس کی اولاد کو آدھا حصہ ، دوسری بیوی اور اس کی اوالاد کو آدھا حصہ آتا ہے، اس لیے میرا سوتیلا بھائی والد کی وراثت میں سے آدھا حصہ مانگ رہا ہے، براہ کرم، بتائیں کہ شریعت کے مطابق ہر ایک کو کتنا حصہ ملنا چاہئے؟

    سوال: میرا مسئلہ یہ ہے کہ ہم دو اور چار بہنیں ہیں، سب ہمارے والد کی دوسری بیوی کی اولاد ہیں، میرے والد کی پہلی بیوی کا بچہ کی ولادت کے وقت انتقال ہوگیا تھا، ان سے لڑکا ہوا تھا ، اسے میرے والد نے اپنے بھائی کو دیدیا تھا، جو اب تک ان (چچا) کی کفالت میں ہی تھا، اب وہ چچا اور چچی بھی وفات پاچکے ہیں اور میرے والد کا بھی انتقال ہوگیاہے،اب ہم یعنی ہماری ماں، دو بھائی اور چار بہنیں اور ایک سوتیلا بھائی ہیں۔ والد کی وراثت میں ہم سب کس طرح حصہ پائیں گے؟ یہاں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ پہلی بیوی کی اوالاد یعنی ایک لڑکا کووالد کی وراثت میں آدھا حصہ ملنا چاہئے ، ان کا کہناہے کہ ہندوستانی حکومت کا قانون کے حساب سے ایک بیوی اور اس کی اولاد کو آدھا حصہ ، دوسری بیوی اور اس کی اوالاد کو آدھا حصہ آتا ہے، اس لیے میرا سوتیلا بھائی والد کی وراثت میں سے آدھا حصہ مانگ رہا ہے، براہ کرم، بتائیں کہ شریعت کے مطابق ہر ایک کو کتنا حصہ ملنا چاہئے؟

    جواب نمبر: 23783

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(د): 1157/910-8/1431

    آپ کے والد مرحوم کا کل ترکہ حقوق مقدمہ علی الارث کی ادائیگی کے بعد اَسّی حصوں میں منقسم ہوکر دس حصہ آپ کی والدہ (مرحوم کی بیوی) کو اور چودہ چودہ حصہ تینوں بیٹوں کو اور سات سات حصے چاروں بیٹیوں کو ملے گا۔
    سوتیلے بھائی کو بھی اسی قدر ملے گا جس قدر آپ دونوں بھائیوں کو ملے گا۔ باپ کی اولاد ہونے میں تینوں برابر ہیں اس لیے حصہ بھی برابر ملے گا۔ یہی اسلام کا قانونِ وراثت ہے، اس کے خلاف جو لوگ بات کہتے ہیں وہ سراسر غلط ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند