• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 21609

    عنوان:  ایک سال سے زیادہ ھوا ھے میرے والد صاحب وفات پا چکے ھیں،میں ان کا بڑا بیٹا ھوں۔ تین بھنوں کی شادی ھوچکی ھے اور وہ ھمارے ساتھ نھی رھتے، ایک بھائی گھر سے دور کام کرتا ھے، دو بالغہ بھنٰیں گھر میں ھیں جن کی ابھی تک شادی نھی ھوئی اور ایک نابالغہ بھن بھی ھے،میرے کچھ سوالات ھیں(ا)باپ کی میراث میں سے ھر ایک کا حصہ معلوم کرچکے ھیں لیکن سب اس پر راضی ھیں کہ ابھی تقسیم نہ کیا جائے کیونکہ ابھی تک گھر میں ھم رھتے ھیں، اور بعض بھنوں نے باوجود اصرار کے اپنا حصہ بخش دیا ھے،اور سب نے ھمیں گھر کی چیزوں کو جو باپ سے بچا ھے تقسیم کرنے سے پھلےاستعمال کرنے کی اجازت دی ھے، لیکن خیال آیا کہ اس میں تو میری نا بالغہ بھن کا بھی حصہ ھے، اور ھم اس کو بھی استّمال کرتے ھیں، یہ کیسا ھے۔اور چیزیں تو استّمال کرنے سے خراب یا ٹوٹتی پوٹتی ھیں(2)خصوصاًً میں نا بالغہ بھن کی مال سے پریشان ھوں،گھر میں بھت سی چیزیں اس کی کھلاتی ھیں مثلاً تکیہ، کمبل، کپڑے،بسترہ وغیرہ کیا یہ چیزیں اس کی ھونگی اور ھم کو اس کے استعمال کا حق نھی ھے...؟؟؟

    سوال:

    محترم مفتی صحب ایک سال سے زیادہ ھوا ھے میرے والد صاحب وفات پا چکے ھیں،میں ان کا بڑا بیٹا ھوں۔ تین بھنوں کی شادی ھوچکی ھے اور وہ ھمارے ساتھ نھی رھتے، ایک بھائی گھر سے دور کام کرتا ھے، دو بالغہ بھنٰیں گھر میں ھیں جن کی ابھی تک شادی نھی ھوئی اور ایک نابالغہ بھن بھی ھے،میرے کچھ سوالات ھیں(ا)باپ کی میراث میں سے ھر ایک کا حصہ معلوم کرچکے ھیں لیکن سب اس پر راضی ھیں کہ ابھی تقسیم نہ کیا جائے کیونکہ ابھی تک گھر میں ھم رھتے ھیں، اور بعض بھنوں نے باوجود اصرار کے اپنا حصہ بخش دیا ھے،اور سب نے ھمیں گھر کی چیزوں کو جو باپ سے بچا ھے تقسیم کرنے سے پھلےاستعمال کرنے کی اجازت دی ھے، لیکن خیال آیا کہ اس میں تو میری نا بالغہ بھن کا بھی حصہ ھے، اور ھم اس کو بھی استّمال کرتے ھیں، یہ کیسا ھے۔اور چیزیں تو استّمال کرنے سے خراب یا ٹوٹتی پوٹتی ھیں(2)خصوصاًً میں نا بالغہ بھن کی مال سے پریشان ھوں،گھر میں بھت سی چیزیں اس کی کھلاتی ھیں مثلاً تکیہ، کمبل، کپڑے،بسترہ وغیرہ کیا یہ چیزیں اس کی ھونگی اور ھم کو اس کے استعمال کا حق نھی ھے(3)وہ نا بلغہ کبھی اپنے پیسوں سے دوسروں کے لیے مثلاً اپنی ماں یا میرے وغیرہ کے لئے چھوٹی تحفہ کریدتی ھے،اس کا یہ کام کیسے ھے اور دسروں کے لیے اس کا لینا کیسا ھے،?اورکبھی لوگ اس کو چیزین بھی دیتے ھیں، کون اس کو چیز دے کو وہ اس کا مالک بن جا تی ھے(4) میرے ماں اور بھنؤں کے پاس اس میراث کے ساتھ جو ابھی تقسیم نھی ھوا یا اس کے بغیر مال اور پیسے ھیں، سوال یہ ھے کہ شرعاً ان کے پاس کتنا مال ھو کہ ان کا نفقہ ھم بھائیوں پر واجب نھی ھوتھا،اس سوال پوچھنے کا یہ منشا نھی کہ جانتے ھی ان کے ساتھ احسان کرنا چھوڑ دین، بلکہ علم حاصل کرنا ھے تاکہ سختیوں اور افراظ اور تفریط سے بچیں۔ اور کیا ان کا علاج اور تعلیم نفقہ میں داخل ھے(5) دو بالغہ بھنوں کے پاس اتنا مال اور زیور نھی کے اس پر ذکات واجب ھو، لیکن ان کے حصہ کی میراث کی زمین کے ساتھ( زمین کی قیمت کے ساتھ) وہ صاحب نصاب ھوجاتی ھیں کیا ان پر ذکات اور قربانی واجب ھے? اس زمین کے زیادو حصہ کو ھم نے کاشت کرنے کے لئے کسی کو دیا ھے اور تھوڑے حصہ کو اپنےلئے ایک گھر بنا نے کے لئے رکھا ھے ?(6) بڑے بھائے ھونے کے ناتھےسےمیرے گھر میں کیا فرائض ھیں?میرے لئے ان کے حقوق اداء کرنے کے لئے دعاء کیجئے ۔?

    جواب نمبر: 21609

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(د): 629=473-5/1431

     

    (۱) وارث اگر اپنے حصہٴ میراث کے متعلق کہے کہ میں نے اپنا حصہ چھوڑدیا یا بخش دیا تو صرف اتنا کہنے سے اس کا حق ختم نہیں ہوگا، بلکہ اس کو بعد میں مطالبہ کا حق باقی رہے گا، البتہ اگر تقسیمِ میراث کے بعد اپنے حصہ پر قبضہ کرکے اپنا حصہ بہنیں وغیرہ بخشنا چاہیں تو بخش سکتی ہیں، تقسیم سے قبل نہیں۔

    (۲) اگر تمام ورثہ نے اپنے سامان کے استعمال کی آپ کو اجات دیدی ہے تو استعمال کرسکتے ہیں ، اسی طرح نابالغہ بہن کے سامان کو جائز اور احسن طریقہ پر استعمال کرسکتے ہیں کما في روح المعاني تحت قولہ تعالیٰ وإن تخالطوہم فإخوانکم أخرج عبد بن حمید عن ابن عباس رضي اللہ عنہ المخالطة أن یشرب من لبنک وتشرب من لبنہ ویأکل في قصعتک وتأکل في قصعتہ ویأکل من تمرتک وتأکل من تمرتہ (روح المعاني: ۲/۱۱۶، سورہٴ بقرہ)

    (۳) نابالغہ کا ہدیہ قبول کرنا جائز نہیں، البتہ اگر والدہ یا بھائی بہن وغیرہ اپنے پاس سے کچھ پیسہ وغیرہ نابالغہ کو کھانے پینے کے لیے دیں اور پھر وہ اس چیز میں سے والدہ وغیرہ کو کچھ دے تو لینے میں حرج نہیں، اس لیے کہ یہ پیسے دینے والے کے ہی شمار ہوں گے، جب تک کہ مالک بنانے کی دلالت نہ پائی جائے: کما في الشامي: وفي خزانة الفتاویٰ، إذا دفع لابنہ مالاً یتصرف فیہ الابن یکون للأب، إلا إذا دلت دلالة التملیک (بیري، شامی، کتاب الہبة)

    (۴) جب تک ان کے پاس اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے مال اور پیسہ وغیرہ موجود ہیں اس وقت تک آپ کے ذمہ ان کا نفقہ اورعلاج نہیں ہے، البتہ جب ان کے پاس پیسہ اور مال وغیرہ ختم ہوجائے نیز ضروری حاجات سے زائد نصاب نامی یا غیرنامی کی مالک نہ رہیں تب ان کا نفقہ اور علاج آپ پر واجب ہے: کما في الرد المحتار وذلک بأن لا یملک نصابًا نامیًا أو غیرنام زائدًا عن حوائجہ الأصلیة والظاہر أن المراد بہ ما کان من غیر جنس النفقة إذا لو کان یملک دون نصاب من طعام أو نقود تحل لہ الصدقة، ولا تجب لہ النفقة فیما یظہر لأنہا معللة بالکفایة وما دام عندہ ما یکفیہ من ذلک لا یلزم کفایتہ (شامي کتاب الطلاق، باب النفقة: ۳۶۳، زکریا) البتہ ان کو مروجہ تعلیم دلانا مذکورہ بالا دونوں صورتوں میں آپ پر واجب نہیں، خواہ ان کے پاس مال ہو یا نہ ہو، لیکن بہشتی زیور، تعلیم الدین، حیات المسلمین اور فضائل اعمال وغیرہ کی اتنی تعلیم کا گھر پر انتظام ضروری ہے جس سے ان کو اپنے روز مرہ کے پیش آمدہ حالات کے متعلق حلال وحرام کی تمیز اور علم ہوسکے۔

    (۵) دونوں بالغہ بہنوں کے مال اور زیورات کو کاشت کی زمین سے حاصل ہونے والے ان کے حصہ کے بقدر نفع کے ساتھ ملانے سے بھی اگر بہنیں نصاب کے بقدر مال کی مالک نہیں ہوتی ہیں تو ان پر زکاة واجب نہیں، وجوبِ زکاة میں میراث کی زمین کی قیمت کا اعتبار نہیں ہوگا اس کو ان کے مال اور زیورات کے ساتھ نہیں ملایا جائے گا۔

    (۶) آپ ان کے ساتھ نرمی اور شفقت کا رویہ اختیار کریں، پورے گھر کو جوڑکر لے کر چلنے کی کوشش کریں اور سب سے اہم فرض یہ ہے کہ والد کے ترکہ اور اس سے حاصل ہونے والے نفع میں ان کے ساتھ پوری امانت اور دیانت کا ثبوت دیں، ان کا حق ان تک پہنچانے کی بہت جلد پوری کوشش کریں اور پھر اگر کوئی کوتاہی ان کے حقوق کے متعلق ہوجائے تو اللہ تعالیٰ سے توبہ واستغفار کریں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند