معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 18345
میرے
ماموں کا چنئی میں انتقال ہوا انھوں نے ایک بیوہ، چار لڑکے (الف، ب، ج اور د) ،
چار لڑکیاں اور تقریباً بارہ پراپرٹی چھوڑی، جس میں سے صرف تین ہی پراپرٹی ان کے
چاروں لڑکیوں کے نام پر ہے (ایک پراپرٹی دو لڑکیوں کے نام پر اورایک پراپرٹی
مشترکہ طور پر دوسری دو لڑکیوں کے نام پر)۔لڑکیوں کی مالی حالت بھی اچھی نہیں ہے
نیز ان کے اوپر اپنی لڑکیوں کی شادی کی ذمہ داری بھی ہے۔ بقیہ نو پراپرٹی یہ سب
مشترکہ ہیں یہ سب ان کی بیوہ اور چار لڑکوں (الف، ب، ج اور د) کے نام پر ہیں
(لڑکیاں اس میں شامل نہیں ہیں)۔ مثلاً ایک پراپرٹی ان کی بیوہ اور لڑکے الف کے نام
پر، ایک دوسری پراپرٹی ب کے نام پر، ایک دوسری پراپرٹی لڑکے ج کے نام پر، ایک لڑکے
د کے نام پرایک دوسری پراپرٹی بیوہ کے نام پر، ایک دوسری پراپرٹی بیوہ اور لڑکوں
الف اور ب کے نام پر اس طرح کااشتراک تمام نو یا اس طرح کی پراپرٹیوں پر ہے لیکن
کوئی پراپرٹی (نو پراپرٹیوں میں سے) چاروں لڑکیوں کے نام پر نہیں ہے ...
میرے
ماموں کا چنئی میں انتقال ہوا انھوں نے ایک بیوہ، چار لڑکے (الف، ب، ج اور د) ،
چار لڑکیاں اور تقریباً بارہ پراپرٹی چھوڑی، جس میں سے صرف تین ہی پراپرٹی ان کے
چاروں لڑکیوں کے نام پر ہے (ایک پراپرٹی دو لڑکیوں کے نام پر اورایک پراپرٹی
مشترکہ طور پر دوسری دو لڑکیوں کے نام پر)۔لڑکیوں کی مالی حالت بھی اچھی نہیں ہے
نیز ان کے اوپر اپنی لڑکیوں کی شادی کی ذمہ داری بھی ہے۔ بقیہ نو پراپرٹی یہ سب
مشترکہ ہیں یہ سب ان کی بیوہ اور چار لڑکوں (الف، ب، ج اور د) کے نام پر ہیں
(لڑکیاں اس میں شامل نہیں ہیں)۔ مثلاً ایک پراپرٹی ان کی بیوہ اور لڑکے الف کے نام
پر، ایک دوسری پراپرٹی ب کے نام پر، ایک دوسری پراپرٹی لڑکے ج کے نام پر، ایک لڑکے
د کے نام پرایک دوسری پراپرٹی بیوہ کے نام پر، ایک دوسری پراپرٹی بیوہ اور لڑکوں
الف اور ب کے نام پر اس طرح کااشتراک تمام نو یا اس طرح کی پراپرٹیوں پر ہے لیکن
کوئی پراپرٹی (نو پراپرٹیوں میں سے) چاروں لڑکیوں کے نام پر نہیں ہے ،صرف ان تین
پراپرٹی کے علاوہ جو کہ اوپر مذکور ہیں۔ جو پراپرٹی تینوں لڑکیوں کے نام پر ہیں ان
اس کی مالیت بہت ہی معمولی ہے۔ دوسری نو پراپرٹیوں کی مالیت بہت زیادہ ہے۔ لڑکیوں
کی تکلیف یہ ہے کہ : چاروں بہنوں کو صرف تین پراپرٹی میں شیئر کرنا ہوگاجو کہ بہت
ہی معمولی مالیت کی ہے، جب کہ بھائیوں کو زیادہ مہنگی پراپرٹی کا فائدہ ہورہا ہے۔
لڑکے دعوی کررہے ہیں کہ (۱)جوکچھ
ان کے والد نے کیا وہ درست ہے۔(۲)وہ
لوگ اس پراپرٹی کو شریعت کے اس اصول عورتوں کو مردوں کا آدھا ملے گا کے مطابق
تقسیم کرنے پر خوش نہیں ہیں۔(۳)وہ
لوگ دعوی کرتے ہیں کہ ان کے والد نے ان کو زبانی طور پر ہدایت دی تھی کہ بڑی
پراپرٹی کی فروخت سے اگر کوئی ہو تو بہنوں کو کچھ رقم دے دینا۔ میں یہ بھی بتادوں
کہ متوفی کی دو بیویاں تھیں پہلی بیوی بہت پہلے انتقال کرگئی جس سے دو لڑکے اور دو
لڑکیاں تھیں۔ دوسری بیوی اب زندہ ہے جس کے دو لڑکے اوردو لڑکیاں ہیں۔ تمام بچے
اکیس سال عمر سے زیادہ ہیں۔ سب شادی شدہ ہیں سوائے د کے ۔ محترم شیخ میں آپ سے
درخواست اور التجا کرتا ہوں کہ آپ اس معاملہ کو دیکھیں اور قرآن و سنت کی روشنی
میں اس کا حل بتائیں جو کہ آ پ کی طرف سے صدقہ جاریہ ہوگا، ان شاء اللہ۔ کیوں کہ
چاروں لڑکیاں اتنی زیادہ رنجیدہ اور اداس ہیں اور اللہ کی مدد کے علاوہ تمام
امیدیں چھوڑ چکی ہیں۔وہ زبانی طور پر کہتی ہیں کہ ان کی مدد کرنے والا کوئی نہیں
ہے۔
میں
نے یہ مسئلہ اس لیے اٹھایا ہے کیوں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری
الوداعی الفاظ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے کانوں
میں کہے تھے: [اوصیکم
بالصلوةو ما ملکت ایمانکم]سنے
ہیں۔ میں اپنی چاروں ماموں زاد بہنوں کو اس سازش میں کمزور پاتا ہوں جس میں وہ لوگ
پھنس گئی ہیں۔ اس لیے برائے کرم آپ ان کی مدد کریں۔ محترم شیخ مجھے امید ہے کہ آ پ
میرے ماموں کی پراپرٹی کے [ہبہ] کے بارے میں جاننا چاہیں گے۔ میرے علم کے مطابق ان
کی کوئی بھی پراپرٹی ان کے لڑکوں کے نام ہبہ نہیں کی گئی تھی۔ ان دنوں ٹیکس بہت
زیادہ تھے اوروہ ایک پرائیویٹ کمپنی میں کام کررہے تھے۔ اس لیے انھوں نے ضروری ان
پراپرٹی کو اپنے بچوں کے نام پر بطور انتظام کے خریدا ہوگا قانونی ٹیکس کی وجوہات
کی بناء پراس ممکنہ نیت کے ساتھ کہ بعد میں دوسرے بچوں کے نام پر خریدیں گے۔ واللہ
اعلم بالصواب۔ یہ ایک کھلا ہوا راز ہے کہ لوگ ٹیکس کی وجوہات کی بناء پر اپنے بچوں
کے نام پر پراپرٹی خریدتے ہیں ۔اللہ آپ کو آپ کی رہنمائی کے بدلہ میں ثواب عطا
فرمائے۔ والسلام
جواب نمبر: 18345
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ل): 127=16tl-2/1431
صورت مسئولہ میں اگر آپ کے ماموں نے ٹیکس سے بچنے یا کسی اور مصلحت کی وجہ سے وہ پراپرٹی بیوی اور اولاد کے نام سے خریدی تھی نہ ہبہ کیا اور نہ ہی اس پر کوئی دلیل شرعی ہے تو اس کا حکم ہے کہ اب وہ تمام پراپرٹی آپ کے ماموں کا ترکہ ہوگئی جو ان کے شرعی ورثہ پر حسب حصص شرعیہ تقسیم ہوگی۔ اگر آپ کے ماموں کے مذکورہ بالا ورثہ ہی شرعاً وارث ہیں تو آپ کے ماموں کا تمام ترکہ ۹۶/ں حصوں میں منقسم ہوکر ۱۲/ حصے مرحوم کو بیوی کو ۱۴، ۱۴ حصے مرحوم کے چاروں لڑکوں میں سے ہرایک کو اور ۷،۷ ہر لڑکی کو ملیں گے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند