• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 17680

    عنوان:

    میں یہ سوال اپنی امی کی طرف سے لکھ رہا ہوں۔ میری والدہ کے والد صاحب کا دسمبر1992میں انتقال ہوا، انھوں نے اپنے پیچھے تین لڑکیاں اور چار لڑکے چھوڑے۔ ان میں سے ایک لڑکی کاانتقال والدین کے انتقال کے بعدہوگیا، اب دو لڑکیاں اور چار لڑکے زندہ ہیں۔کریم نگر میں مختلف جگہوں پر میرے نانا کے پاس بہت ساری پراپرٹی تھی۔ان کے انتقال کے بعد ان کی اہلیہ (میری نانی) میرے نانا کی تمام پراپرٹی کی دیکھ بھال کرنے والی تھیں۔ مئی 2005میں میرے نانا کے انتقال کے بعد میری ماں کے تمام بھائیوں نے معاہدہ کیا اور پراپرٹی کو چار حصوں میں تقسیم کردیا (۱)آر سی سی بلڈنگ کو دو چھوٹے بھائیوں نے لے لیااور (۲)اور دو خالی پلاٹ دو بڑے بھائیوں نے لے لیا بغیر میری ماں کی رضامندی کے۔ جب میری ماں نے پوچھا کہ میرا حصہ کہا ں ہے تو ان کے جواب یہ تھے کہ [والد کی پراپرٹی میں لڑکیوں کا کوئی حصہ نہیں ہوتا ہے اور جب میری ماں مسلم قانون کے مطابق کہتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ...

    سوال:

    میں یہ سوال اپنی امی کی طرف سے لکھ رہا ہوں۔ میری والدہ کے والد صاحب کا دسمبر1992میں انتقال ہوا، انھوں نے اپنے پیچھے تین لڑکیاں اور چار لڑکے چھوڑے۔ ان میں سے ایک لڑکی کاانتقال والدین کے انتقال کے بعدہوگیا، اب دو لڑکیاں اور چار لڑکے زندہ ہیں۔کریم نگر میں مختلف جگہوں پر میرے نانا کے پاس بہت ساری پراپرٹی تھی۔ان کے انتقال کے بعد ان کی اہلیہ (میری نانی) میرے نانا کی تمام پراپرٹی کی دیکھ بھال کرنے والی تھیں۔ مئی 2005میں میرے نانا کے انتقال کے بعد میری ماں کے تمام بھائیوں نے معاہدہ کیا اور پراپرٹی کو چار حصوں میں تقسیم کردیا (۱)آر سی سی بلڈنگ کو دو چھوٹے بھائیوں نے لے لیااور (۲)اور دو خالی پلاٹ دو بڑے بھائیوں نے لے لیا بغیر میری ماں کی رضامندی کے۔ جب میری ماں نے پوچھا کہ میرا حصہ کہا ں ہے تو ان کے جواب یہ تھے کہ [والد کی پراپرٹی میں لڑکیوں کا کوئی حصہ نہیں ہوتا ہے اور جب میری ماں مسلم قانون کے مطابق کہتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ موروثی جائداد سے کیا مراد ہے؟ اس لیے میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ میری ماں کی شریعت کے مطابق ان کا حصہ پانے میں مدد کریں۔نیز [موروثی جائداد] کا معنی بھی بتائیں؟

    جواب نمبر: 17680

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ھ):2505=1929-12/1430

     

    آپ کے نانا مرحوم اورنانی مرحومہ کی کل ملکیت (جائداد، نقدی، زیورات ودیگر اشیاء) دونوں مرحومان کا ترکہ ہے، جس کی شرعی تقسیم اولاد پر واجب ہے اور مراد یہ ہے کہ بعد ادائے حقوق متقدمہ علی المیراث دونوں مرحومان کا کل مالِ متروکہ گیارہ حصوں پر تقسیم کرکے دودو حصے چاروں بیٹوں کوملیں گے اور ایک ایک حصہ تینوں بیٹیوں کو ملے گا۔

    لڑکوں کا حصہ نہیں بلکہ لڑکیوں کا بھی ہوتا ہے، شریعتِ مطہرہ کا حکم ایسا ہی ہے۔

    والے نے وصیت کی ہو تو اسکا نفاذ ہوتا ہے، اس کے بعد جو بچے اس کے تمام ورثہٴ علیٰ قدر حصصہم حق دار ہوتے ہیں۔

    ورثہٴ شرعی کے حصوں کے بقدر کرنا واجب ہوتا ہے،البتہ وراثت کی تقسیم سے قبل تجہیز تکفین تدفین کا خرچ اور بذمہٴ میت قرض ہو تو اس کی ادائیگی اورمرنے

    (۲) وفات کے وقت مرحوم جو کچھ اپنی ملکیت میں چھوڑکر دنیا سے رحلت کرتا ہے وہ تمام احوال اس کی موروثی جائداد وغیرہ میں شامل ہوتا ہے جس کی تقسیم


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند