• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 17639

    عنوان:

    اگر میرے پاس کوئی باغ یا دکان یا مکان ہو تو کیا میں اپنی پوری پراپرٹی مسجد یا اسکول یا غریب لوگوں کو یااسپتال کو اپنیلڑکے کے لیے کچھ نہ چھوڑنے کے مقصد سے عطیہ کرسکتاہوں؟اگر میں اپنی تمام پراپرٹی کو عطیہ کردوں تو کیا میرے بچے اس کو میری موت کے بعد لے سکتے ہیں؟ میں نے سنا ہے کہ میں اپنے بچوں کی وجہ سے اپنی پوری پراپرٹی عطیہ نہیں کرسکتاہوں میں اس بات کو صاف کرنا چاہتا ہوں کہ کیا یہ سچ ہے یا نہیں؟

    سوال:

    اگر میرے پاس کوئی باغ یا دکان یا مکان ہو تو کیا میں اپنی پوری پراپرٹی مسجد یا اسکول یا غریب لوگوں کو یااسپتال کو اپنیلڑکے کے لیے کچھ نہ چھوڑنے کے مقصد سے عطیہ کرسکتاہوں؟اگر میں اپنی تمام پراپرٹی کو عطیہ کردوں تو کیا میرے بچے اس کو میری موت کے بعد لے سکتے ہیں؟ میں نے سنا ہے کہ میں اپنے بچوں کی وجہ سے اپنی پوری پراپرٹی عطیہ نہیں کرسکتاہوں میں اس بات کو صاف کرنا چاہتا ہوں کہ کیا یہ سچ ہے یا نہیں؟

    جواب نمبر: 17639

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ل):1891=381tl-12/1430

     

    شریعت نے نفلی صدقہ پر اولاد پر خرچ کرنے کی ترغیب دی ہے اور اسی کو پسند کیا ہے، حدیث شریف میں ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ میرے پاس دینار ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس کو اپنے اوپر خرچ کرو، اس نے کہا میرے پاس اور بھی ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو اپنی اولاد پر خرچ کرو الخ [عن أبي ہریرة رضي اللہ عنہ قال جاء رجل إلی النبي صلی اللہ علیہ وسلم فقال: عندي دینار قال: أنفقہ علی نفسک قال: عندي آخر قال: أنفقہ علی ولدک] إلخ (مشکاة: ۱/۱۷۱) اولاد کو محروم کرنے کے لئے اپنی پوری جائداد مسجد، اسکول،غریب لوگوں، یا ہسپتال کے لیے دینا جائز نہیں۔

    درمختار میں ہے: من لہ أطفال ومال قلیل لا یوصي بنفل وفي الشامیة: قال في نور العین عن مجمع الفتاوی: لو الورثة صغاراً فترک الوصیة أفضل وکذا لو کانوا بالغین فقراء ولا یستغنون بالثلثین وإن کانوا أغنیاء أو یستغنون بالثلثین فالوصیة أفضل (شامي: ۹/۶۰۹، ط زکریا دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند