• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 176143

    عنوان: زندگی میں کسی اولاد کو اُس کا حصے دے کر میراث سے محروم کرنے وغیرہ کا حکم

    سوال: ایک شخص اپنی زندگی میں حالت صحت میں اپنے ایک بیٹے کو کچھ معتد بہ رقم یا جائیداد کا کچھ حصّہ اس شرط پر دیتا ہے کہ وہ اس کے مرنے کے بعد ہر قسم کی میراث سے محروم رہے گا،کیا شرعا ایسا کرنا جائز ہے ؟ کیا اس طرح وہ میراث سے محروم رہے گا؟ اگر بیٹا والد کے مرنے کے بعد دعوی میراث کرلے تو اس کی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟

    جواب نمبر: 176143

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:448-414/N=7/1441

    (۱-۳): آدمی کا مال، اُس کی وفات پر وراثت کا مال ہوتا ہے، زندگی میں نہیں۔ اور زندگی میں اولاد کو جو کچھ دیا جاتا ہے، وہ ہبہ وعطیہ ہوتا ہے، وہ وراثت یا وراثت کا عوض نہیں ہوتا اور نہ ہوسکتا ہے اگرچہ دیتے وقت صراحت کردی جائے اور وراثت ایک جبری وغیر اختیاری چیز ہے، اس میں مرنے والے کا کوئی دخل نہیں ہوتا اور نہ اس کی رضامندی وغیرہ چلتی ہے؛ لہٰذا اگر کسی باپ نے اپنی زندگی میں حالت صحت وتندرستی میں کسی بیٹے کو کوئی زمین وجائداد اس شرط پر دی کہ وہ باپ کی وفات پر ہر قسم کی میراث سے محروم رہے گا تو یہ شرط لغو اور کالعدم ہوگی اور باپ کی وفات پر دیگر اولادکی طرح وہ بیٹا بھی حسب شرع وراثت کا حق دار ہوگا اور اُسے اپنے لیے میراث کے دعوی کا حق ہوگا؛

    البتہ اگرکوئی بیٹا، باپ سے اُس کی زندگی میں بہت سارا مال ودولت پاچکا ہو اور دیگر وارثین کو باپ نے زندگی میں کچھ نہ دیا ہو تو اُسے دیانتاً چاہیے کہ باپ کے ترکہ سے کوئی چھوٹی موٹی چیز لے کر دیگر وارثین کے حق میں دست بردار ہوکر تخارج کی صورت اختیار کرے ؛ تاکہ اس کا حصہ وراثت کے ساتھ مل کر دیگر وارثین سے بہت زیادہ نہ ہو۔

    وفي جامع الفصولین: ویصح تعلیق الھبة بشرط ملائم کوھبتک علی أن تعوضني کذا، ولو مخالفاً تصح الھبة لا الشرط اھ، وفي حاشیتہ للخیر الرملي: أقول: ویوٴخذ منہ جواب واقعة الفتوی: وھب لزوجتہ بقرة علی أنہ إن جاء ہ أولاد منھا تھب البقرة لھم، وھو صحة الھبة وبطلان الشرط اھ (رد المحتار، کتاب البیوع، باب المتفرقات، ۷: ۵۰۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند