• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 174485

    عنوان: متفاوت قیمت كی زمین كس حساب سے تقسیم كی جائے گی؟

    سوال: گر مورث مختلف مقامات میں زمین بطور وراثت چھوڑے اور ہر زمین کی قیمت میں تفاوت ہو۔ مثلا ایک زمین روڈ کے قریب ہے ، ایک دور ہے یا ایک شہر میں ہے ایک دیہات میں ، ایک قابل زراعت ہے اور ایک نہیں ، اور مارکیٹ ریٹ سب کا مختلف ہے ۔ تو کیا قیمت کو نظر انداز کرکے صرف حصوں کے مطابق تقسیم کی جائیگییا اس تقسیم میں قیمت کا بھی اعتبار کرکے اصل حصوں میں بھی حصوں کے تناسب سے تفاوت آیے گا۔مثلا شہر مین 4مرلہ کی قیمت 20لاکھ ہے اور دیہات میں 8مرلہ کیقیمت 20 لاکھ ہے ۔تو اگر دو بھائی ہیں تو کیا ان میں اس طرح تقسیم درست ہے کہ ایک بھاء ی کو 4 مرلہ دیاجاء ے شہر میں اور دوسرے بھاء ی کو 8 مرلہ دیا جاء ے ،یہ سوال تب ہوگأ جب ورثاء زیادہ ہو اور ہر ایک کو اگر ہر جگہ میں حصہ دیا جاء ے تووہ قابل انتفاع نہ ہوگأ ، یا انتفاع میں کمی ہوگی ۔نیزیہ بھی کہ اگر قیمت کا اعتبار شرعا مطلوب ہو تو کیایوم وفات کے وقت قیمت کا اعتبار ہوگأ، یایوم تقسیم کے وقت ۔ مثلا یوم وفات کے وقت قیمت تو برابر تھی لیکن بعد میں تقسیم سے قبل کسی ایک زمین کی قیمت بڑھ گئی۔

    جواب نمبر: 174485

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:261-35T/L=3/1441

    تقسیم میں ورثاء کے درمیان مساوات ضروری ہے ؛اس لیے اگر ترکہ میں دوطرح کی زمینیں ہیں ایک قیمتی اور ایک غیرقیمتی تو اس طور پر تقسیم کرنا ضروری ہوگا کہ زیادہ قیمتی زمین اور کم قیمتی زمین کی قیمتوں کے درمیان جو تفاوت رہ رہا ہے اس کے بقدر دوسری جگہ زائد زمین دوسرے ورثا ء کو دیدی جائے تاکہ تقسیم میں مساوات باقی رہے اور اگرورثاء قیمت لینے پر متفق ہوجائیں تو تقسیم کے وقت کی قیمت کا اعتبار ہوگا ۔

    دار بین جماعة أرادوا قسمتہا وفی أحد الجانبین فضل بناء فأراد أحد الشرکاء أن یکون عوض البناء الدراہم وأراد الآخر أن یکون عوضہ من الأرض فإنہ یجعل عوضہ من الأرض ولا یکلف الذی وقع البناء فی نصیبہ أن یرد بإزاء البناء من الدراہم إلا إذا تعذر فحینئذ للقاضی ذلک وإذا کان أرض أو بناء فعن أبی یوسف - رحمہ اللہ تعالی - أنہ یقسم کل ذلک باعتبار القیمة وعن أبی حنیفة - رحمہ اللہ تعالی - أنہ یقسم الأرض بالمساحة ثم یرد من وقع البناء فی نصیبہ أو من کان نصیبہ أجود دراہم علی الآخر حتی یساویہ فتدخل الدراہم فی القسمة ضرورة وعن محمد - رحمہ اللہ تعالی - أنہ یرد علی شریکہ بمقابلة البناء ما یساویہ من العرصة وإن بقی فضل ویتعذر تحقیق التسویة بأن لا تفی العرصة بقیمة البناء فحینئذ یرد الفضل دراہم کذا فی الکافی.(الفتاوی الہندیة 5/ 205)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند