• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 173464

    عنوان: اگر کوئی اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کسی کو ہبہ كردے تو كیا وہ مالك ہوجائے گا؟

    سوال: مفتی صاحب رہنمای فرما دیجیے ۔ مفصل مسئلہ پیش خدمت ہے ؛ ۱۔ والدہ نے اپنی ملکیتی ۲ گھر بالترتیب ۱۱ مرلہ اور ۳۱ مرلہ ۰۱۰۲ میں بھائیوں کو ملکیت کے طور پر کاغذات دید دیئے گئے تھے صرف انتقال باقی تھا۔ والدہ نے اپنی زندگی میں بہنوں اور پڑوسیوں پر واضح کر دیا تھا کہ گھر کے معاملات بھائیوں سے طے کئے جائیں یعنی مالک و قابض بنا کر۔ ۶۱۰۲ میں قانونی پیچیدگی کی وجہ سے کہ یہ مکان والدہ کے نام پر ہے ، سائل کے عقد نکاح کے وقت والدہ نے ۴ مرلہ بعوض ۳ لاکھ روپئے ۳۱ مرلہ مکان میں جہاں سائل خود رہائش پزیر ہے میں بحصہ حق مہر میری زوج کے نام فروخت کر دی۔ ۲۔ ہم تمام ۲ بھائیوں اور ۵ بہنوں کی شادی ہو چکی ہے ۔ والد کا انتقال ۷۰۰۲ میں ہوا۔ زرعی زمین ۷۱ کنال والد کا ترکہ ہے اس میں سے والدہ نے تمام ورثا کی رضا مندی سے ۲۰۱۳ میں ۵۱ کنال بالترتیب ۳ کنال ۵بہنوں کو ملکیت کی گئیں ان کے تصرف اور اختیار میں ہیں۔ صرف انتقال نہیں ہوا تھا۔والدہ کی زندگی میں فیصلے کے بعد فصلوں کی دیکھ بھال اور معاملات تا حال بہنوں کی سرپرستی میں ہوتے رہے ہیں۔اور بھائیوں نے زرعی اجناس کا کچھ حصہ بھی ملکیت کے بعد وصول نہیں کیا۔ یعنی بہنیں مکمل مالک اور قابض ہیں۔ ۳۔ والد کے ترکہ کا والدہ اپنا آٹھواں حصہ تقریباً ۲ کنال بھائیوں کی ملکیت دیا لیکن آج تک اس سے بھایوں نے کچھ وصول نہیں کیا۔ اور وہ بھی زرعی زمینوں کے ساتھ ملحق ہیں۔ اس کی ملکیت بارے بھی رہنمائی فرما دیجیے ۔ تقسیم کے بعد سے والدہ مکان اور زرعی زمین کے معاملات سے لاتعلق ہوگئے ۔والدہ کا انتقال فروری ۲۰۱۷ میں ہوا۔اب جون ۲۰۱۹ میں بڑے بھائی سے معاملے میں اختلاف پر دو بہنوں کا یہ کہنا ہے کہ گھرچونکہ مالیت میں زیادہ ہیں لہٰذہ ہمیں گھروں میں بقدر مالیت حصہ چاہیے ان ۲ بہنوں کے بقول گھر کی مالیت ۵ لاکھ فی مرلہ جبکہ زمینوں کی مالیت ۳ لاکھ روپے کنال ہے ۔ جبکہ میں نے ایک دوست سے معلوم کیا تو اس نے بتایا کہ۲۱۰۲ میں ۵۶ ہزار مرلہ کے حساب سے اسی علاقہ میں خریدی اور اسی گاؤں میں نسبتًا کمزور زرعی زمین ایک لاکھ ۰۲ ہزار کنال میں فروخت کی۔ جامع جواب سے مطلع فرمائیں۔آپ کے تعاون کا مشکور رہوں گا۔ جزاکم اللہ خیرًا

    جواب نمبر: 173464

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 86-17T/D=02/1441

    وراثت مورث کے مرنے کے بعد جاری ہوتی ہے؛ لیکن اگر کوئی اپنی زندگی ہی میں اپنی جائیداد کسی کو ہبہ کرکے اس کا مالک و قابض بنادے تو وہی اس کا مالک ہوتا ہے؛

    (۱) لہٰذا صورت مسئولہ میں جب والدہ نے اپنی حیات ہی میں دونوں مکان جو کہ ان کی ملکیت تھا نہ کہ ان کے شوہر کی ملکیت، تقسیم کرکے دونوں لڑکوں کے قبضہ و دخل میں دے دیا تو دونوں لڑکے ہی اس کے مالک ہوئے اس میں دیگر ورثاء کا کوئی حصہ نہیں ہے۔

    (۲) اور زرعی زمین جو کہ والد کاترکہ ہے اس میں بیوی، بیٹے اور بیٹی سب کا حصہ ہے؛ لیکن اگر ماں نے ورثاء کی رضامندی سے صرف لڑکیوں کا حصہ لگایا، لڑکوں کو اس میں سے کچھ نہیں دیا اور لڑکے اس پر بہ خوشی راضی ہیں تو لڑکیاں اس کی مالک ہوگئیں۔

    (۳) زرعی زمین میں جو حصہ والدہ کا ہے سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں لڑکوں کو علیحدہ علیحدہ ہبہ کرکے اس کا مالک و قابض نہیں بنایا تھا؛ لہٰذا والدہ کی وفات کے بعد ان کا یہ حصہ ترکہ میں شمار ہوکر ورثاء (لڑکے اور لڑکیوں) کے درمیان حصہ شرعیہ کے مطابق تقسیم ہوگا۔

    (۴) چوں کہ والدہ نے اپنا دونوں مملوکہ مکان دونوں لڑکوں کے درمیان اپنی زندگی میں تقسیم کرکے ان کو مالک و قابض بنادیا تھا؛ لہٰذا اب اس میں بہنوں کا حصہ نہیں رہا؛ اس لئے دونوں بہنوں کا مالیت کے اعتبار سے تقسیم کا مطالبہ کرنا صحیح نہیں ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند