• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 173018

    عنوان: مشترکہ خاندانی نظام میں ذاتی کمائی سے خریدی گئی جائداد کی حیثیت

    سوال: کیا فرماتے ہیں اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید کے بیٹے عمر نے پشاور میں ایک مکان اپنے نام پر خریدا ، مکان کی ملکیت 8 لاکھ 30 ہزار روپے کے لگ بھگ ہے ، عمر نے 3 لاکھ کے لگ بھگ اپنے والد سے لئے اور بقیہ رقم قرض لے کر مکان کی قیمت ادا کی اور بعد میں یہ قرض خود ادا کیا ( بقولِ عمر والد صاحب سے لی گئی رقم یعنی 3 لاکھ بھی اسی کے پیسے تھے جو اس نے اپنی ذاتی کمائی سے اپنے والد کو وقتاً فوقتاً دئے تھے ) دوسرے بھائیوں کا کہنا ہے کہ یہ مکان چونکہ والد صاحب کی زندگی میں خریدا گیا تھا اور اس وقت سب ایک ساتھ رہتے تھے اس لیے یہ سب میں مشترک ہوگا۔ جبکہ عمر کا کہنا ہے کہ یہ رقم ( جو بقولِ عمر اس کی اپنی کمائی ہے ) اس کے والد نے اس کو اپنی زندگی میں دی تھی ، چونکہ وہ گھر کے سب سے بڑے بیٹے تھے اور اولاد بڑی ہو چکی تھی جن کیلئے الگ گھر کی ضرورت تھی ، بقول عمر اس نے 35 سال باہر ملک ( دوحہ قطر ) کا سفر کیا ، اس عرصے میں وہ بیوی بچوں سے دور رہے ، دو تین بھائیوں کی شادیوں کے خرچے اُٹھائے ، دو بہنوں کی شادیوں کے خرچے میں بھی زیادہ حصہ ان کا رہا ، بے روزگار بھائیوں کے برسر روزگار ہونے تک ان کے اور ان کے بیوی بچوں کے خرچے اٹھائے ، دو بھائیوں کو ویزے پر باہر بلایا اور برسر روزگار ہونے تک ان کے خرچے برداشت کئے ۔ بقولِ عمر ان تمام قربانیوں کا اعتراف ان کے سب بھائی بھی کریں گے اور ان کے غالب گمان کے مطابق کوئی بھائی ان باتوں کا انکار نہیں کر سکے گا۔ عمر کا کہنا ہے کہ یہ تین لاکھ روپے بھی وہی رقم ہے جو میں نے اپنے خون پسینے کی کمائی سے اور بیوی بچوں سے دور رہ کر جمع کی تھی اور والد صاحب کو بھیجی تھی ، اور والد صاحب نے یہ رقم ( تین لاکھ ) میری ان قربانیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اور میرے لئے الگ گھر کی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے دئے تھے ۔ سوال یہ ہے کہ موجودہ صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے تین لاکھ روپے جو زید نے عمر کو اپنی زندگی میں دئے تھے کی شرعی تعیین فرمائیں کہ کیا یہ والد کی طرف سے ھدیہ شمار ہوگا ؟ جبکہ یہاں اس تہمت کا اندیشہ بھی نہیں ہے کہ والد اس تین لاکھ سے دوسرے بیٹوں بیٹیوں کو محروم کرنا چاہتا تھا۔

    جواب نمبر: 173018

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 1335-1155/D=01/1441

    صورت مسئولہ میں بہ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ عمر اپنی آمدنی الگ رکھتا تھا اور وقت ضرورت باپ کا تعاون کرتا تھا، ایسی صورت میں عمر نے اپنی آمدنی سے جو مکان خریدا وہ عمر ہی کی ملکیت شمار ہوگی، باپ کا ترکہ نہیں شمار ہوگا، اور تین لاکھ روپئے جو باپ نے عمر کو دیئے اگر قرض کی کوئی صراحت نہیں ہے تو سوال نامہ میں ذکر کردہ تفصیل کی روشنی میں قرائن سے بہ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ باپ کی طرف سے ہدیہ ہے اگر اس کے خلاف کے قرائن قویہ موجود ہوں تو اسی کے مطابق عمل ہوگا، آپس میں مل بیٹھ کر طے کرلیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند