معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 172912
جواب نمبر: 172912
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 1311-1111/D=12/1440
وراثت کی تقسیم مرنے کے بعد ہوتی ہے ابھی آپ زندہ ہیں تو اپنی جائیداد نقد وغیرہ کے تنہا مالک ہیں کسی بیٹے کا کوئی حق نہیں کہ اپنے حصے کا دعویٰ یا مطالبہ کرے۔ اپنی مملوکہ جائیداد اور نقد سے آپ جس طرح چاہیں اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں مثلاً بچوں کی تعلیم شادی بیاہ کا انتظام کرنا۔
اگر کسی مصلحت سے آپ یہی مناسب سمجھتے ہیں کہ اپنی مملوکہ چیزیں بچوں میں تقسیم کردیں تو زندگی میں دینے کو ہبہ کرنا کہتے ہیں۔ ہبہ کرنے کا بھی آپ کو پورا اختیار ہے جس کے لئے بہتر ہے کہ اپنی اور بیوی (اگر زندہ ہو تو اس) کی ضرورت کے بقدر زمین نقد وغیرہ روک کر باقی تقسیم کردیں جس کے لئے مستحب یہ ہے کہ لڑکے لڑکی سب کو برابر دیں یعنی جس نقد اور زمین کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں اس کے آٹھ (8) حصے کرکے ہر لڑکے لڑکی کو ایک ایک حصہ ہبہ کردیں اور اگر وراثت کے مطابق لڑکے کو دوہرا حصہ اور ہر لڑکی کو اکہرا حصہ دیں تو یہ بھی جائز ہے۔ اس صورت میں تقسیم ہونے والی جائیداد اور رقم کے دس (10) حصے کرکے دو دو (2-2) حصے ہر لڑکے کو اور ایک ایک حصہ ہر لڑکی کو دیدیں۔
اور اگر کسی لڑکے یا لڑکی کو اس کے نیک سعادت مند، خدمت گذار ہونے کی وجہ سے زیادہ دینا چاہیں تو اس کی بھی گنجائش ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند