• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 172799

    عنوان: مقدمہ کے ذریعہ دین مہر کی رقم لینا

    سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں: کہ مئو میں شیخ محمد زمیندار تھے ، جن کی کافی جائدادیں تھیں، اخیر عمر میں وہ اپنی کچھ جائداد وقف باری تعالیٰ کرنا چاہتے تھے ، مگر ۱۹۳۴ء میں وہ انتقال کرگئے اور چھوڑا ایک بیوی حفصہ بی بی، ایک لڑکا حامد اور تین لڑکیاں(بلقیس بی بی، نفیس بی بی اور ذاکیہ بی بی) شیخ محمد مرحوم کی کل جائداد چالیس سہام پر منقسم ہوکر پانچ سہام بی بی حفصہ کو، چودہ سہام لڑکے حامد کو اور سات سات سہام تینوں لڑکیوں کو ملا۔ شیخ محمد کے انتقال کے بعد وقف علی الاولاد کا ایک وقف نامہ ان کی زوجہ حفصہ بی بی مقر(۱) اور لڑکے حدمد مقر (۲) نے لکھا کہ مقر (۱) کا حصہ جائداد مفصلہ ذیل حرف الف میں منجملہ سہام چالیس سہام کے پانچ سہام اور مقر (۲) حامد کا حصہ جائداد مفصلہ فہرست (ب) میں منجملہ چالیس سہام کے چودہ سہام پر قابض ودخیل تھے ، شیخ محمد کے انتقال کے بعد ان کی جائدادوں میں جھگڑے شروع ہوگئے ، تو حفصہ بی بی نے دین مہر کا ایک مقدمہ اپنے لڑکے حامد اور اپنی تینوں لڑکیوں کے خلاف ۱۹۳۵ء میں عدالت سب ججی غازی پور میں دائر کیا اور بذریعہٴ صلحنامہ بعد سود وخرچہ کے 12250/=روپیہ کی ڈگری بحق مقر (۱) حفصہ بی بی کو ۱۹۳۵ء میں ہوئی۔ منجملہ زرڈگری مذکور4900/= روپیہ جو ندمہ مقر(۲) حامد واجب الاداء تھا، اس کے معاوضہ میں مقر(۲) حامد نے اپنی مفصلہ فہرست ذیل عرف(ج) کو بحق مقر(۱) (حفصہ بی بی) بیع کردیا، اور اس پر مقر(۱) کا قبضہ دخل کرادیا۔ اب مقر(۱) اور مقر(۲) نے شیخ محمد کی روح کو خوش کرنے اور ان پر اپنی جائدادکی حفاظت اور ہمیشہ کے لیے خیر خیرات کا سلسلہ جاری رکھنے اور اپنی اولاد کی پرورش کا انتظام کرنے کی غرض سے اپنی اپنی جائداد کو ۱۹۳۶ئمیں وقف علی الاولاد کردیا، مقر(۱) نے بھی اپنی زندگی میں وقف شدہ جائداد کو بیچا اور ان کے اور مقر(۲) کے انتقال کے بعد مقر(۲) کے لڑکے محمد عارف نے وقف شدہ جائدادوں کو بیچنا شروع کیا، خریدنے والے لاعلم تھے کہ یہ وقف جائداد ہے ، بیچنے والے نے دھوکا دیا اور لوگوں نے لاعلمی میں خریدا اور اس پر اپنا مکان اور دوکان بنوالیا۔ حامد کی بہن نفیس بی بی لاولد تھی، اس کے انتقال کے بعد اس کا حصہ اس کے بھائی حامد کی بیوی بدرالنساء اور اس کی دونوں بہنوں بلقیس بی بی اور ذاکیہ بی بی کو ملا، بدرالنساء کا حصہ ان کے لڑکے محمد عارف کو ملا۔ محمد عارف کے مرنے کے بعد ان کے لڑکوں جاوید وغیرہ نے بھی وقف شدہ جائدادوں کو بیچنا شروع کیا، جب وقف شدہ جائدادیں ختم ہوگئیں تو جاوید نے اپنے دادا حامد اور پردادی حفصہ بی بی کا تحریر کردہ وقف نامہ (وقف ڈیڈ) ۲۰۱۴ء میں سنی سنٹرل وقف بورڈ لکھنوٴ میں داخل کرکے رجسٹریشن کراکر اور خود متولی بن کر جتنے لوگوں نے وقف جائدادوں کو ان کے باپ دادا سے خریداتھا جس پر وہ لوگ بیسوں سال سے زیادہ عرصہ سے قابض ودخیل ہیں، نوٹس بھجوادیا ہے کہ یہ وقف جائداد ہے اس کو خالی کردیں۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ: (۱) حفصہ بی بی کا دین مہر کا مقدمہ اپنے لڑکے اور لڑکیوں کے خلاف کرنا کیسا ہے اور بذریعہٴ صلحنامہ جو رقم ملی ہے اس کا استعمال کرنا کیساہے ؟ (۲) وقف شدہ جائداد کا بغیر خریدار کو بتلائے ہوئے دھوکا دھڑی کرکے بیچنا کیسا ہے ؟ اور لاعلمی میں خریدنے والوں کا خریدنا کیساہے ؟ (۳) جن لوگوں نے وقف جائداد لاعلمی میں خرید کر اپنے مکانات یا دوکان بنوالیاہے اور عرصہٴ دراز سے اس پر قابض ودخیل ہیں اس کو وقف بورڈ میں ۲۰۱۴ء میں رجسٹرڈ کراکر متولی بن کر اور ایک سرکاری پاور لے کر جبراً ان لوگوں کا بیع نامہ کینسل کرانا اور اس کو خالی کرانا کیساہے ؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں اس طرح کے مسائل کا حل کیاہے اور کیسے ہے ؟

    جواب نمبر: 172799

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 1323-200T/B=12/1440

    بیٹا اور تینوں بیٹیوں کو چاہئے تھا کہ پہلے ماں کا دین مہر ادا کرتے اس کے بعد جائداد کی تقسیم کرتے۔ یا اپنی طرف سے چاروں مل کر ماں کا دین مہر ادا کر دیتے۔ یہ ان لوگوں نے برا کیا۔ لیکن ماں کے لئے بھی یہ مناسب نہ تھا کہ اپنا دین مہر اپنے بیٹے بیٹی سے وصول کرے اور اس کے لئے مقدمہ کرے لیکن اگر مقدمہ کے ذریعہ دین مہر کی رقم ماں کو ملی تو وہ اپنا مقررہ دین مہر لے سکتی ہے۔

    (۲) جو چیز وقف ہوتی ہے وہ واقف اور اس کے ورثہ کی ملکیت سے نکل کر اللہ کی ملکیت میں چلی جاتی ہے۔ اللہ کی ملکیت کو بیچنا ہمارے لئے ہرگز جائز نہیں۔ خریداروں کو چاہئے کہ اپنے پیسے اُن سے وصول کریں۔

    (۳) اگر لاعلمی میں خرید لیا تو علم ہونے کے بعد وقف جائداد کا خریدار کے لئے استعمال کرنا گناہ ہے۔ اب خریداروں کو چاہئے کہ اپنے نقصانات کی تلافی کا مسئلہ وقف بورڈ سے حل کریں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند