• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 171944

    عنوان: میراث کے حق دار کون کون ہیں

    سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ آج سے 20 سال قبل میرے والد محترم کا انتقال ہوگیا پھر والدہ ماجدہ کا بھی پندرہ سال بعد انتقال ہوگیا ان کی اولاد میں دو لڑکے اور دو لڑکیاں ہیں سب ہی کے والدین کی حیات میں ہی نکاح ہوچکے ہیں اور سب صاحب اولاد بھی ہیں الحمدللہ اپنی حیات ہی میں والد محترم نے ایک مکان بنوایا تھا جو تقریباً 200 گز کے رقبہ پر مشتمل ہے تعمیر تقریبا 180 / یا 190 گز پر ہے جس پر دو پورشن ہے ایک حصے میں بڑے فرزند رہتے ہیں اور دوسرے میں چھوٹے صاحبزادے مسئلہ یہ درپیش ہے کہ بڑے فرزند کے پاس مکان کے جملہ دستاویزات والد کے انتقال کے بعد سے (بیس سال سے) ہیں، اب تقسیم مکان کی بات پر کچھ بہانے بناتے ہوئے ٹال رہے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں چھوٹے لڑکے کی بیوی اور بچے کچھ نجی معاملات کی وجہ سے علاحدہ رہتے ہیں بڑے فرزند کا کہنا ہے کہ اگر بٹوارہ کیا تو چھوٹے لڑکے کی بیوی اور بچے (بھتیجے) مجھ سے کہیں گے کہ ہماری غیر موجودگی میں کیوں تقسیم کئے اس کو ڈھال بنا کر تقسیم سے انکار کر رہا ہے کیا یہ درست ہے؟ اور اس تقسیم میں چھوٹے لڑکے کی بیوی اور بچوں کا موجود ہونا ضروری ہے؟ کیا اس جائیداد میں بہو اور پوتوں کا حق رہے گا یا بیٹے کا؟ اور مرحومین کی جملہ دو لڑکیوں اور دو لڑکوں کو شرعاً کتنا کتنا حق میراث ملے گا مکمل دلائل کے ساتھ شریعت کی روشنی میں جواب دیں تو مہربانی ہوگی۔

    جواب نمبر: 171944

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:962-97T/sd=12/1440

    صورت مسئولہ میں والد مرحوم کا ترکہ بعد ادائے حقوق متقدمہ علی الارث و عدم موانع ارث کل چھ حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے دو دو حصے دونوں بیٹوں میں سے ہر ایک کو اور ایک ایک حصہ دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو ملے گا، بشرطیکہ والد مرحوم کے والدین میں سے کوئی باحیات نہ ہو اور والد مرحوم کی بہو اور پوتوں کا اُن کے ترکہ میں کوئی شرعی حصہ نہیں ہے اور تقسیم کے وقت چھوٹے فرزند کی اہلیہ اور بچوں کا موجود رہنا ضروری نہیں ہے، اس تقسیم کا تعلق تو دونوں بیٹوں اور دونوں بیٹیوں سے ہے ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند