• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 171555

    عنوان: زندگی میں والد اگر غیر مساوی طور پر تقسیم کردے تو اس تلافی کیسے ہو؟

    سوال: استفتاء برائے تقسیم وراثت 1) کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں جس میں زید کے 6 بیٹے اور 3 بیٹیاں ہیں. اور اپنی زندگی میں ہی زید نے اپنی وراثت تقسیم کرنے کیلئے اپنے مکان کو فروخت کر دیا اور برابر برابر اپنی اولاد میں رقوم تقسیم کر دی ۔ بیٹیاں اپنے اپنے گھر رہتی ہیں، انہیں انکا حق دیدیا گیا۔ اور تمام 6 لڑکوں کیلئے زید کی خواہش یہ تھی کہ تمام لڑکے ایک ہی جگہ زمین لیکر الگ الگ مگر ایک جگہ رہیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا مگر جو زمین خریدی گئی وہ دو سمتوں والی زمین ملی. جس میں آگے کی سمت 3 لڑکوں کو اور پیچھے کی سمت 3 لڑکوں کو برابر برابر زمین تقسیم کی گئی۔ آگے کی سمت 3 لڑکوں کو جو جگہ دی گئی وہ سمت بڑی سڑک ہے اور شاہراہ عام ہے، اور وقت کے اعتبار سے اُس جگہ کی قیمت زیادہ ہے. مگر پیچھے کی سمت 3 لڑکوں کو جو جگہ دی گئی وہ نہایت ہی تنگ چھوٹی سی گلی اور شاہراہ عام بھی نہیں اور وقت کے اعتبار سے اسکی قیمت کم ہے۔ اب ایسی زمین پر مکان کی تعمیر ہوئی اور تعمیر میں بھی تمام دیواریں کالم اور بیم وغیر مشترک رکھی گئی جسے عرف عام میں پڑوسی دیوار کہا جاتا ہے۔ زید کا اصرار تھا کہ تمام لڑکے ایک ہی جگہ الگ الگ درج بالا تر تیب سے ر ہیں۔ اس ترتیب میں پیچھے سمت رہنے والے لڑکوں کو اکثر و بیشتر بہت ساری تکالیف کا سامنا بھی ہوتا ہے بہ نسبت آگے کی سمت والوں سے. اس ترتیب میں سب سے چھوٹے لڑکے کا کہنا ہے کہ درج بالا تقسیم کے وقت میں کافی چھوٹا تھا، بہت سمجھ بھی نہیں تھی مجھے، پیچھے کی تنگ گلی میں جگہ دی گئی. اب مجھے اس بات کا احساس ہورہا ہے کہ یہ تقسیم جیسے کہ غلط ہے. کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں. کیا یہ تقسیم وراثت کی درج بالا ترتیب صحیح ہے۔ ۲) درج بالا مسئلے میں چونکہ زید کے اصرار پر ایک جگہ لے کر 6 لڑکوں کیلئے زمین لی گئی اور تقسیم وراثت بول کر لڑکوں کو آگے پیچھے تقسیم کی گئی، اب اگر پیچھے رہنے والے ۲ لڑکے اپنے حصے کی جگہ فروخت کرنا چاہیں تو تعمیری کام مشترک ہونے کی وجہ سے اور پیچھے تنگ اور چھوٹی گلی اور شاہراہ عام بھی نہ ہونے کی وجہ سے اِن 2 لڑکوں کو اپنے حصے کی جگہ فروخت کرنے میں حد درجہ دشواریوں کا سامنا ہے، اس حالت میں پیچھے رہنے والے لڑکوں نے زید کی موجودگی میں ہی مشورہ کیا کہ یہ تقسیم وراثت صحیح نہیں ہے، اس جگہ کو فروخت کر کے تمام لڑکوں میں رقوم تقسیم کی جائے یا پھر آگے سمت رہنے والے لڑکے پیچھے سمت رہنے آجائیں. مگر اس میں فی الحال پیچھے رہنے والے لڑکوں نے کہا کہ اگر آپ پیچھے آؤ گے تو آپ لوگوں کا حق مارا جائیگا، ہم یہ نہیں چاہتے. اس قسم کی تمام باتوں کی وجہ سے سے زید کے لڑکوں میں پہلے سے جو محبت خلوص ایک دوسرے کا احترام و اکرام تھا وہ مجروح ہوتا گیا اور یہ بات زید کے لڑکوں میں کئی جماعت بندی کر بیٹھی . معاملات لڑائی جھگڑے سے بھی تجاوز ہوتے چلے گئے. دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت بغض و عداوت بڑھتی چلی گئی. اس قسم کے بہت سے حالات دینی اعتبار سے بھی مجروح ہوتے گئے. یہ تمام چیزیں زید کی موجودگی میں ہوتی رہی. کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں، زید ابھی حیات ہے. 3) درج بالا مسئلے میں زید نے جو وراثت 6 لڑکوں میں تقسیم کی اِس جگہ کی خریدی میں اور تمام مکان کی تعمیر میں زید کے ایک لڑکے نے ایک تہائی رقم اپنی ذاتی محنت کی کمائی سے خرچ کی، چونکہ زید کے لڑکوں میں درج بالا مسئلے کی وجہ سے نفرت بغض اور عداوت بڑھتی چلی گئی. اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے اِس لڑکے نے اپنی ذاتی محنت سے گھر کی تعمیر میں لگائی ہوئی رقم کا مطالبہ کرتا ہے تو اس صورت میں زید کو کیا کرنا چاہیے؟ حالانکہ زید کے لڑکوں میں لڑائی جھگڑے سے پہلے زید کے مذکورہ لڑکے کی طرف سے اس قسم کا کوئی مطالبہ نہیں تھا. کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کا کیا حل ہے؟ ( نوٹ : زید ابھی حیات ہے)

    جواب نمبر: 171555

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:972-188T/SN=12/1440

    (1،2)زندگی میں باپ اپنی جائداد کا خود مالک ہوتا ہے، اس میں کسی اولاد کا کوئی حق نہیں ہوتا، اولاد کا حق تو باپ کی وفات کے بعد وابستہ ہوتا ہے ؛ ہاں اگرباپ زندگی ہی میں اپنی جائداد اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہے توتقسیم کر سکتا ہے ؛ لیکن یہ تقسیم میراث کی تقسیم نہیں ؛بلکہ ہبہ ہوتی ہے، اگر باپ اولاد کو ہبہ کرکے ہر ایک کو اس کے حصے پر قبضہ دخل دیدے تو باپ کی طرف سے ہبہ تام ہوجاتا ہے اور باپ کا اختیار ختم ہوجاتا ہے، اگر وہ واپس لینا چاہے تو نہیں لے سکتا؛ اس لیے صورت مسئولہ میں اگر باپ(زید) نے اپنے بیٹوں کوزمین دے کر ہر ایک کو اس کے حصے پرمکمل قابض بنا دیا تھا تو باپ کی طرف سے ہبہ تام ہوگیا، اب اس ہبہ کو باپ کالعدم قرار دے کر از سر نو تقسیم نہیں کر سکتا اور نہ بیٹوں کو باپ سے اس کے مطالبے کا حق ہے؛ البتہ باپ(زید)یہ کر سکتا ہے کہ اگر اس نے فی الواقع تین بیٹوں کو نسبتاً کم قیمت والی زمین دی ہے تو اپنی موجودہ ملکیت(اگر کچھ ہو تو) میں سے انھیں کچھ مزید دیدے ؛ تاکہ ان کے حصے بھی دیگر بھائیوں کے مساوی ہوجائیں۔

    (3) الف: زید کے ایک بیٹے نے مکان کی خریداری اور تعمیر میں جو رقم لگائی تھی یہ بہ طور قرض تھی؟ یا تبرع؟ رقم دیتے وقت زید یا اپنے دیگر بھائیوں کے ساتھ اس کا کچھ معاہدہ ہوا تھا یا نہیں؟ اگر ہوا تھا تو وہ کیا ہے؟

    ب:سوال میں یہ لکھا گیا ہے کہ اس بیٹے نے ذاتی رقم لگائی تھی تو یہ واضح کیا جائے کہ ذاتی رقم کی نوعیت کیا تھی؟ وہ الگ سے نوکری کرتا ہے جس کی آمدنی اس میں صرف کی یا باپ کا کاروبار سنبھالتا تھا جس میں سے اس نے خرچ کیا یاکوئی اور شکل تھی؟

    ج:زید خود،بیٹے کی طرف سے شامل کردہ رقم کے بارے میں کیا کہتاہے؟ ان امور کی پوری وضاحت آنے کے بعد ہی اس جز کا کوئی حتمی جواب تحریر کیا جا سکتا ہے۔ نوٹ: آئندہ استفتا میں زید اور اس کے تمام بیٹوں کے دستخط بھی ثبت فرمائیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند