معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 171435
جواب نمبر: 171435
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:1217-132T/L10/1440
زندگی میں مال وجائیداد کی تقسیم وراثت کی تقسیم نہیں ہے ؛بلکہ ہبہ اور عطیہ ہے اور ہبہ وعطیہ میں اولاد (خواہ مذکر ہوں یا مونث)کے درمیان مساوات سے کام لینا بہترہے؛اس لیے اگر زید اپنی حیات میں اپنی جائیداد کو تقسیم کرنا چاہتاہے تو بہتر ہے کہ اپنی اور اپنی اہلیہ کی ضرورت کے بقدر اموال وجائیداد رکھ کر مابقیہ کو اپنی تمام اولادِ ذکور واناث میں برابر برابر تقسیم کردے ،اگر کسی لڑکے یا لڑکی کو اس کے نیک یا محتاج ہونے کی وجہ سے جبکہ اس سے مقصود دیگر اولاد کو نقصان پہونچانا نہ ہو کچھ زائد دیدے تو اس کی بھی گنجائش ہے، نیز زمین کے قیمتی ہونے یا نہ ہونے کے اعتبار سے بھی کمی زیادتی کی جاسکتی ہے یعنی زید ایسا کرسکتا ہے کہ دونوں زمینوں کی قیمتوں کا لحاظ کرتے ہوئے جس کی زمین زیادہ قیمتی ہے اس زائد قیمت کے عوض دوسرے کو زائد زمین دیدے ۔
قال فی الہندیة: لو وہب شئیاً لأولادہ فی الصحة، وأراد تفضیل البعض علی البعض ، عن أبی حنیفة رحمہ اللّٰہ تعالی: لابأس بہ اذا کان التفضیل لزیادة فضل فی الدین ، وان کانا سواء، یکرہ، وروی المعلی عن أبی یوسف رحمہ اللّٰہ تعالی أنہ لابأس نہ اذا لم یقصد بہ الاضرار ، وان قصد بہ الاضرار ، سوی بینہم وہو المختار۔۔۔ ولو کانا لولد مشتغلاً بالعلم لا بالکسب ، فلا بأس بأن یفضلہ علی غیرہ۔ (الفتاوی الہندیة: ۴/ ۳۹۱، کتاب الہبة، الباب السادس)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند