• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 169520

    عنوان: ایك بیوی‏، چھ بیٹے‏، ایك بیٹی‏، بہو اور پوتیوں كے درمیان وراثت كی تقسیم

    سوال: (۱) میرے والد صاحب نے دو شادیاں کی تھیں، پہلی بیوی سے جس کو انہوں نے طلاق دیدی تھی، ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے، بیٹی کی شادی ہوچکی ہے اور بیٹا اپنی ماں کے ساتھ چلا گیاہے، اور دوسری بیوی سے جو میری ماں ہیں، والد صاحب کے چھ بیٹے ہیں ، سب سے بڑے بیٹے کا دس سال پہلے انتقال ہوگیاہے ، ان کے پسماندگان میں ایک بیوہ اور تین بیٹیاں ہیں، اب تین مہینے قبل میرے والد کا انتقال ہوگیاہے، ان کے پسماندگان میں(۱) میری والدہ،(۲) پہلی بیوی سے ایک بیٹیا اور ایک بیٹی (شادی شدہ) ،(۳) دوسری بیوی سے پانچ بیٹے ، (۴)بڑے مرحوم بھائی کی ایک بیوہ اور تین بیٹیاں ہیں۔ (۲) براہ کرم، بتائیں کہ زمین، مکان ، کار اور نقد پیسہ وغیرہ کو کیسے تقسیم کریں؟ (۳) ایک بات یہ ہے کہ اگر ورثہ میں کوئی مالی طورپر کمزور ہو تو کیا اس کو زیادہ حصہ لینا چاہئے؟ (۴) اور اگر والد صاحب نے اپنے کسی وارث کی حمایت میں وصت کی ہو تو اس کے بارے میں کیا حکم ہوگا؟

    جواب نمبر: 169520

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 845-738/H=07/1440

     

    (۱) بعد اداءِ حقوق متقدمہ علی المیراث وصحت تفصیل ورثہ والد مرحوم کا کل مالِ متروکہ ایک سو چار حصوں پر تقسیم کرکے تیرہ حصے مرحوم کی بیوہ (آپ کی والدہ) کو اور چودہ چودہ حصے مرحوم کے چھ بیٹوں کو اور سات حصے مرحوم کی بیٹی کو ملیں گے مرحوم کے بیٹے مرحوم کی بیوہ اور پوتیاں اِس صورت میں والد مرحوم کے ترکہ سے شرعاً محروم ہیں۔

    کل حصے   =             ۱۰۴

    -------------------------

    بیوی         =             ۱۳

    بیٹا            =             ۱۴

    بیٹا            =             ۱۴

    بیٹا            =             ۱۴

    بیٹا            =             ۱۴

    بیٹا            =             ۱۴

    بیٹا            =             ۱۴

    بیٹی           =             ۷

    بہو            =             محروم

    پوتیاں      =             محروم

    --------------------------------

    (۲) نقد روپیہ کار زمین مکان و دیگر تمام اشیاءِ والد مرحوم نمبر 1 میں تقسیم و تخریج کے مطابق تقسیم کرلیں۔

    (۳) اس کو زیادہ حصہ نہ ملے گا البتہ پہلے شرعی لحاظ سے تقسیم کرلیں اور ہر وارث کو اس کے حصہ پر قبضہٴ تامہ دیدیں اس کے بعد جو بالغ وارث اپنے حصہ میں سے تمام یا کچھ دیگر وارث کو دے کر مالک و قابض بنادے تو ا س میں کچھ حرج نہیں۔

    (۴) کیا وصیت کی تھی؟ اس کو صاف صحیح واضح لکھ کر سوال دوبارہ کرلیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند