معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 169520
جواب نمبر: 169520
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 845-738/H=07/1440
(۱) بعد اداءِ حقوق متقدمہ علی المیراث وصحت تفصیل ورثہ والد مرحوم کا کل مالِ متروکہ ایک سو چار حصوں پر تقسیم کرکے تیرہ حصے مرحوم کی بیوہ (آپ کی والدہ) کو اور چودہ چودہ حصے مرحوم کے چھ بیٹوں کو اور سات حصے مرحوم کی بیٹی کو ملیں گے مرحوم کے بیٹے مرحوم کی بیوہ اور پوتیاں اِس صورت میں والد مرحوم کے ترکہ سے شرعاً محروم ہیں۔
کل حصے = ۱۰۴
-------------------------
بیوی = ۱۳
بیٹا = ۱۴
بیٹا = ۱۴
بیٹا = ۱۴
بیٹا = ۱۴
بیٹا = ۱۴
بیٹا = ۱۴
بیٹی = ۷
بہو = محروم
پوتیاں = محروم
--------------------------------
(۲) نقد روپیہ کار زمین مکان و دیگر تمام اشیاءِ والد مرحوم نمبر 1 میں تقسیم و تخریج کے مطابق تقسیم کرلیں۔
(۳) اس کو زیادہ حصہ نہ ملے گا البتہ پہلے شرعی لحاظ سے تقسیم کرلیں اور ہر وارث کو اس کے حصہ پر قبضہٴ تامہ دیدیں اس کے بعد جو بالغ وارث اپنے حصہ میں سے تمام یا کچھ دیگر وارث کو دے کر مالک و قابض بنادے تو ا س میں کچھ حرج نہیں۔
(۴) کیا وصیت کی تھی؟ اس کو صاف صحیح واضح لکھ کر سوال دوبارہ کرلیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند