• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 169388

    عنوان: نانا نے جو جائداد اپنی زندگی میں ماموں كی دی تھی وراثت سے متعلق اس كا كیا حكم ہے؟

    سوال: میرا سوال وراثت سے متعلق ہے میرے نانا جی نے اپنی جائیداد اپنے دونوں بیٹوں میں تقسیم کر دی اور ان کے نام کے کر دی بعد میں بیٹیوں کو کہا کہ میں نے آپ سے پوچھے بنا تقسیم کر دی اپ کو کوئی اعتراض تو نہیں تو بیٹیوں نے کہا نہیں، میری والدہ کے دو بھائی ہیں اور پانچ بہنیں تین بہنیں ہمارے گھر سے 2 کلو میٹر کے فاصلہ پہ ہیں۔ ہوا یوں کہ میری امی کے بڑے بھا ئی نے کہا کہ میں جگہ دیتا ہوں ایک کنال تو اپ بھی ان بہنوں کے پاس مکان بنا لو میرے ماموں اس وقت کناڈا میں تھے انہوں نے میری والدہ کو کہا کہ میں جب پاکستان آؤں گا تو آپ کے نام کر دوں گا ہم نے مکان بنانا شروع کر دیا جب مکان کھڑا ہوگیا، لینٹر ڈال دیا تو کچھ مسائل کی وجہ سے جھگڑا ہو گیا انہوں نے زمین واپس لے لی یہ سب 2009 میں ہوا 2014 میں ہماری ان سے صلح ہو گئی لیکن زمین کا مسئلہ حل نہ ہوا اور اب تک میرے ماموں اور نانا جی کا انتقال ہو گیا اب جو چھوٹے ماموں ہیں چھوٹے ماموں اور بڑے ماموں کی بیویاں آپس میں حقیقی بہنیں ہیں۔اب ہم ان سے مطالبہ کر رہے ہیں زمین کا تو ماموں کہتے ہیں یہ زمینیں اب ہمارے نام ہیں اور یہ ہماری اولاد کیلئے ہیں اور میری والدہ کو کہتے ہیں اگر حصہ چاہیے تو باپ کو قبر سے بلاؤ وہ تم کو آ کے حصہ دے تو پوچھنا یہ ہے کہ باپ کی وفات کے بعد کیا بہن اپنا حصہ لے سکتی ہے یا نہیں؟ اس کا اپنا بھائی سے حصہ مانگنا صحیح ہے یا نہیں کیونکہ ماموں لوگوں کا کہنا ہے کہ حصہ باپ نے نہیں دیا تو ہم کیوں دیں اور ہماری جگہ سے اپنا مکان اکھاڑ لو اور کیا ہماری والدہ ماموں کے بچوں سے حصہ مانگ سکتی ہے لیکن بڑے ماموں کے بچے بھی چھوٹے ماموں کی مانتے ہیں اگر بھائی جائیداد نہیں دے رہے تو کیا وہ گنہگار ہیں یا ان کا نہ دینا صحیح ہے؟ کیوں کہ باپ نے نہیں دی اس میں ایک بات یہ بھی ہے کہ زمین تو بڑے ماموں کے نام ہے لیکن ان کی غیر موجودگی میں پیمائش کر کے نانا جی نے ہی دی ہے مطلب کہ امی کے ابو نے وہ جود دے کر گیے تھے جس وقت مکان بنانے کیلئے جگہ دی تو وہ نانا جی کی موجودگی میں دی گئی اور اگر ہماری والدہ کا حصہ لینا صحیح ہے اور ماموں نہیں دے رہے تو کیا بہن کے حصہ سے جو آمدنی ہے ماموں کھا رہے کیا ان کے لئے وہ حلال ہے؟

    جواب نمبر: 169388

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 661-559/D=07/1440

    آپ کے نانا نے اپنی زندگی میں جائیداد کی تقسیم کرکے ماموں کو جو دیا تھا، اگر آپ کے ماموں نے نانا کی زندگی ہی میں اس پر مکمل طور پر قبضہ کرلیا تھا، تو وہ اس کے مالک بن گئے تھے، کسی دوسرے کا حق اس جائیداد سے متعلق نہیں رہا تھا، پھر آپ کے جن ماموں نے آپ کی والدہ کو جو زمین بطور ہبہ کے دی، پھر آپ کی والدہ کی طرف سے اس پر قبضہ کرکے مکان بنالیا گیا، تو ہبہ مکمل ہوگیا، اور آپ کی والدہ مکمل طور پر اس کی مالک ہوگئیں، اب آپ کے ماموں یا ان کے کسی وارث کو کوئی اختیار نہیں کہ وہ اپنی ہبہ کی ہوئی زمین واپس لیں۔ لیکن اگر آپ کے ماموں نے نانا کی زندگی میں اس پر قبضہ نہیں کیا تھا، یا آپ کے ماموں نے اپنی زمین بطور ہبہ اور عطیہ کے نہیں دی تھی، بلکہ عاریةً یا اجارة دی تھی، تو وضاحت کے ساتھ لکھ کر دوبارہ سوال کرلیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند