• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 168170

    عنوان: قانونی مجبوری كی وجہ سے بیوی كے نام كی گئی زمین كا حكم؟

    سوال: کیا فرماتے علماء دین اس مسئلے میں کہ ایک بنگلادیشی چودھری آج سے تقریبا پچھتر سال قبل ملِک برما آکررہائش رہائش اختیار کرلیا اور یہاں برما ہی میں ایک خاتون سے نکاح کیا اور کء اولاد ہوئے اس زمانے میں انہوں نے اپنے ذاتی پیسے سے ایک زمین خریدی جو تقریبا ۴۰ہزار کی تھی برما میں قانونی طور پرایک غیر ملکی اپنے نام سے زمین وغیرہ نہیں خرید سکتا تو چودھری صاحب نے اپنی بیوی کے نام سے خریدلی اور چودھری کا انتقال ہو گیا انہوں نے اپنے پیچھے ایک بیوی ۴ لرکے اور۴لرکیاں چھوری کء سالوں کے بعد چودھری صاحب کی بیوی نے اپنا لرکا یس کو لیے جاکر وہ زمین ایک مسجد کو وقف کردی اس طرح وقف کرنے کو یس کے علاوہ دوسرے بھاء بہنوں کو واقفیت اور علم نہیں ، کہتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے علم کے باوجود لاعلمی ظاہر کررہے ہوں کیونکہ اسوقت زمین کی قیمت نہیں تھی آب اسکی قیمت ہزاروں لاکھوں کی ہے تو اب نیت بگر گء ہو بہر کیف اب دریافت امر یہ ہے کہ ۱ اپنے شوہر چودھری صاحب کی زمین تو انکے انتقال کے بعد انکی بیوی جو اب انتقال کر چکی ہیں اور انکا بیتا یس کا ایک مسجد کے نام کیا ہوا وقف صحیح ہے یا نہیں ۲ یس کے علاوہ دوسرے اولادوں کا اسطرح والدہ اور بھائی کے وقف کا علم ہوتے ہوے سکوت اختیار کرکے کچھ نہیں کہا تو گویا ان سے رضامندی ثابت ہوکر یہ وقف صحیح ہوگا یا نہیں اور جس مسجد کو وقف کیا تھا وہ مسجد اس کا حقدار رہیگی یا نہیں اس دوران وقف شدہ زمین سے حاصل شدہ پھل وغیرہ سے جو آمدنی ہوتی رہی وہ مستقل مسجد میں جمع ہوتی تھے ۔ براہ کرم جواب مطلع فرمائیں۔

    جواب نمبر: 168170

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:537-47T/L=6/1440

    مذکورہ بالا صورت میں اگر چودھری صاحب نے قانونی مجبوری کی بنا پر زمین اپنی اہلیہ کے نام کی تھی تو محض نام کی وجہ سے بیوی اس زمین کی مالک نہیں ہوئی اور مرحوم کی وفات کے بعد وہ زمین ترکہ ہوگئی اور تمام ورثاء کا اس میں مشترک حصہ ہے، اور مشترک ملک میں ایک یا دو آدمیوں کا وقف کرنا خاص طور پر جب کہ وقف مسجد کے لیے ہو درست نہیں، اگر تمام ورثاء اس وقف پر راضی نہیں ہیں تو ان کو چاہیے کہ اپنے درمیان اس مشترک زمین کو حسب حصص شرعیہ تقسیم کرلیں، مشترک زمین کا نہ وقف درست ہوا اور نہ ہی اس کی آمدنی کا مسجد میں استعمال درست ہوا ہے۔

    (۲) وقف کا علم ہونے کے بعد دوسرے ورثاء کا خاموش رہنا رضا کی دلیل نہیں ہے؛ لأنہ ینسب إلی ساکت قول․

     قال: ”ووقف المشاع جائز عند أبي یوسف“ لأن القسمة من تمام القبض والقبض عندہ لیس بشرط فکذا تتمتہ․ ”وقال محمد: لا یجوز“ لأن أصل القبض عندہ شرط فکذا ما یتم بہ، وہذا فیما یحتمل القسمة، وأما فیما لا یحتمل القسمة فیجوز مع الشیوع عند محمد أیضا لأنہ بعتبر بالہبة والصدقة المنفذة إلا في المسجد والمقبرة فإنہ لا یتم مع الشیوع فیما لا یحتمل القسمة أیضا عند أبي یوسف ․ (الہدایة: ۲/۶۳۸) وفی فتح القدیر: اتفقوا علی منع وقف المشاع مطلقا مسجدا ومقبرة․ (فتح القدیر للکمال ابن الہمام: ۵/ ۴۲۶) وقال في البحر الرائق: والحاصل أن وقف المشاع مسجدا أو مقبرة غیر جائز مطلقا اتفاقا وفی غیرہما إن کان مما لا یحتمل القسمة جاز اتفاقا. والخلاف فیما یحتملہا ومن أخذ بقول أبی یوسف فی خروجہ بمجرد اللفظ وہم مشایخ بلخ أخذ بقولہ فی ہذہ ومن أخذ بقول محمد فی القبض وہم مشایخ بخاری أخذ بقولہ فی وقف المشاع وصرح فی الخلاصة من الإجارة والوقف بأن الفتوی علی قول محمد فی وقف المشاع وکذا فی البزازیة والولوالجیة وشرح المجمع لابن الملک وفی التجنیس وبقولہ یفتی وتبعہ فی غایة البیان․ (۵/۳۲۹)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند