معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 165187
جواب نمبر: 165187
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 17-2/M=1/1440
(۱) صورت مسئولہ میں زید نے جو زمین خریدی اور اس کی رجسٹری بکر کو چھوڑ کر دیگر لڑکوں کے نام کرائی تو اس کے متعلق عرض ہے کہ اگر رجسٹری کرانے کے بعد زید نے اس زمین کے حصے کرکے الگ الگ لڑکوں کو دے کر مالک و قابض بھی بنا دیا تھا تب تو جن جن لڑکوں کو حصہ دے کر مالک و قابض بنا دیا تھا وہ مالک ہوگئے اور اگر ایسا نہیں کیا تھا صرف کاغذی طور پر نام کرایا تھا اور عملی طور پر قبضہ و تصرف زید نے اپنا برقرار رکھا تھا تو اس صورت میں وہ زمین زید ہی کی ملکیت ہے اور زید اپنی زندگی میں خود مختار ہے چاہے اولاد کو دے یا نہ دے اور چاہے فرخت کردے یا وقف کردے ، ہر تصرف کا حق ان کو حاصل ہے اور اگر زندگی میں زید نے وہ زمین اولاد کے درمیان تقسیم نہیں کی او رنہ کسی قسم کا تصرف کیا بلکہ اپنی ملکیت میں باقی رکھا اور اسی حال میں انتقال ہو گیا تو اسی صورت میں تمام اولاد یعنی سبھی لڑکے اور لڑکیاں وارث ہوں گی۔
(۲) اس صورت میں زید کی متروکہ جائیداد میں زید کی بہن کے بچوں کا کوئی حصہ نہیں ہے۔
(۳) اگر یہ زمین ایک تہائی ترکہ یا اس سے کم ہے اور زید نے اپنی طلاق شدہ لڑکی کے لڑکے یعنی نواسے (زاہد) کو اپنی ملکیت میں سے دینے کی وصیت کی تھی اور یہ وصیت شرعاً ثابت ہے یعنی اس پر دو گواہ موجود ہیں تو چاہے وصیت زبانی ہو وہ معتبر ہوگی اور زید کے ترکہ سے ایک تہائی کے حق دار وصیت کے مطابق ان کے نواسے (زاہد) ہوں گے اگر زید کے لڑکوں نے وہ زمین فروخت کردی ہے تو ایک تہائی کی قیمت نواسے کو دیدی جائے ورنہ لڑکے گنہگار ہوں گے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند