• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 165052

    عنوان: بیوی ایك لڑكا اور تین لڑكیوں كے درمیان تقسیم

    سوال: گذشتہ سال میرے والد کا انتقال ہوگیاہے، میری تین بہنیں ہیں ، سب کی شادی ہوچکی ہے ۔ میں گھر میں فیملی اور والدہ کے ساتھ رہتاہوں، والد صاحب نے یہ مکان بنایا تھا مگر والدہ کے نام رجسٹرڈ ہے، والد صاحب نے انتقال سے بہت پہلے تحریری اور زبانی طورپر کہا تھا کہ میں نے بہنوں کو حصہ دیدیاہے (لیکن میرا غالب گمان یہ ہے کہ شریعت کے مطابق ان کو حصہ نہیں دیا گیاہے)، (۱) تو بقیہ جو جائیداد والد صاحب کی ہے، وہ میری اور والدہ کی ہے؟ (۲)اور کیا والدہ اس مکان کی مالک ہے؟(۳)یا میراث میں اس کو تقسیم کیا جانا چاہئے؟

    جواب نمبر: 165052

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:52-24/N=2/1440

    (۱):مرحوم نے اگرچہ بیٹیوں کو اپنی زندگی میں ان کا وراثتی حصہ دیدیا ہو، تب بھی مرحوم کی وفات پر مرحوم کے ترکہ میں بیٹیوں کا شرعی حق وحصہ ہوگا؛ کیوں کہ آدمی کا مال، اس کی وفات کے بعد راثت ہوتا ہے، زندگی میں نہیں ۔ اور زندگی میں کسی بیٹا یا بیٹی کو جو کچھ دیا جاتا ہے، وہ شریعت کی نظر میں ہبہ ہوتا ہے، وراثت نہیں ہوتی؛ اس لیے صورت مسئولہ میں مرحوم نے اپنی ملکیت میں جو کچھ چھوڑا ہے، اس میں آپ اور آپ کی والدہ کی طرح آپ کی سب بہنوں کا بھی حق وحصہ ہوگا۔

    (۲): اگر مرحوم نے آپ کی والدہ کو شرعی طریقہ پر مکان کا مالک نہیں بنایا ہے ؛ بلکہ محض فرضی اور کاغذی طورپر آپ کی والدہ کے نام رجسٹرڈ کردیا تھا (فتاوی دار العلوم دیوبند ۱۵: ۲۲۷، ۲۲۸، سوال: ۳۰، ۳۱، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند، امداد الفتاوی۳: ۳۶، ۳۷،سوال: ۲۸،مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند اور فتاوی عثمانی۳: ۴۴۵، ۴۴۶، مطبوعہ: مکتبہ معارف القرآن کراچی)یا مرحوم نے آخر زندگی تک آپ کی والدہ کو مکان پر شرعی قبضہ دخل نہیں دیا تھا تو یہ مکان حسب شرع مرحوم کے تمام شرعی وارثین میں تقسیم ہوگا، یہ مکان تنہا آپ کی والدہ کانہ ہوگا۔

    قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:کل واحد أحق بمالہ من والدہ وولدہ والناس أجمعین (السنن الکبری للبیہقی۷: ۷۹۰)،اعلم أن أسباب الملک ثلاثة:ناقل کبیع وہبة وخلافة کإرث وأصالة الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصید، ۱۰:۴۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، مستفاد:وہو أي:بیع التلجئة أن یظہرا عقدا وہما لا یریدانہ یلجأ إلیہ لخوف عدو،وہو لیس ببیع فی الحقیقة بل کالہزل (المصدر السابق، کتاب البیوع، باب الصرف ۷: ۵۴۲)، وتتم الھبة بالقبض الکامل ولو الموھوب شاغلاً لملک الواھب لا مشغولا بہ الخ (المصدر السابق، کتاب الھبة،۸: ۴۹۳)، وکما یکون للواھب الرجوع فیھا - أي: فی الھبة الفاسدة - یکون لوارثہ بعد موتہ؛ لکونھا مستحقة الرد (رد المحتار، ۸: ۴۹۶)۔

    (۳): مرحوم نے اگر اپنے وارثین میں اپنے ماں، باپ، دادا، دادی اور نانی میں سے کسی کو نہیں چھوڑا، صرف ایک بیوہ، ایک بیٹا اور تین بیٹیوں کو چھوڑا ہے تو مرحوم کا سارا ترکہ بعد ادائے حقوق متقدمہ علی الارث ۴۰/ حصوں میں تقسیم ہوگا، جن میں سے ۵/ حصے بیوہ کو، ۱۴/ حصے آپ کو اور ۷، ۷/ حصے آپ کی ہر بہن کو ملیں گے۔تخریج کا نقشہ حسب ذیل ہے:

    زوجة     =       ۵

    ابن      =       ۱۴

    بنت      =       ۷

    بنت      =       ۷

    بنت      =       ۷

    قال اللہ تعالی:﴿ فإن کان لکم ولد فلھن الثمن مما ترکتم الآیة ﴾(سورة النساء، رقم الآیة: ۱۲)، وقال تعالی أیضاً:﴿ یوصیکم اللہ في أولادکم للذکر مثل حظ الأنثیین﴾(سورة النساء، رقم الآیة: ۱۱)، فیفرض للزوجة فصاعداً الثمن مع ولد الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الفرائض، ۱۰:۵۱۱، ۵۱۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، ویصیر عصبة بغیرہ البناتُ بالابن الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الفرائض، ۱۰:۵۲۲)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند