• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 160976

    عنوان: مالك حیات ہے تو اس میں کسی بھی بیٹے یا بیٹی کا کوئی شرعی حصہ نہیں ہے

    سوال: رضوان اور شیرزادہ دو بھائی تھے ،رضوان فوت ہوگئے ،مرحوم کی بیوی کے ساتھ شیرزادہ کی شادی ہوئی ۔ اس بیوی سے دو بیٹے سرباز اور جاوید پیدا ہوئے ، شیرذادہ کو باپ کے ورثے میں ایک زمین ملی تھی ۔شیرزادہ نے ایک شخص کو قتل کیا مقتول کے ورثاء کو صلح میں آدھی زمین دیدی ۔شیرزادہ نے دوسری شادی کی دوسری بیوی سے دو بیٹے اور تین بیٹیاں پیدا ہوئیں ۔ اب شیرزادہ کی پہلی بیوی سے جو بیٹا سرباز ہے وہ باپ کو کہتا ہے کہ یہ آدھی زمین میری ہے اس زمین میں میرے باپ کا کوئی حق نہیں ہے ۔اب باپ اور بیٹے کا تنازعہ ہے ۔ برائے مہربانی شریعت کی رو سے یہ مسئلہ حل فرمائیں۔

    جواب نمبر: 160976

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1016-872/sd=8/1439

     

    مذکورہ آدھی زمین اگر شیرزادہ کی مملوکہ ہے اور شیرزادہ باحیات ہے، تو اپنی زندگی میں وہ تنہا زمین کا مالک ہوگا، کسی بھی بیٹے یا بیٹی کا اس زمین میں کوئی شرعی حصہ نہیں ہے؛ البتہ شیرزادہ کے انتقال کے بعد اس کی مملوکہ آدھی زمین شرعی ورثاء کے درمیان حسب حصص شرعیہ تقسیم ہوگی جس میں اس کی ساری اولاد کا حصہ ہوگا، صرف پہلی بیوی کا لڑکا سرباز ہی پوری زمین کا حق دار نہیں ہوگا، سرباز کس بنیاد پر مذکورہ زمین میں اپنی ملکیت کا دعوی کررہا ہے؟


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند