• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 159445

    عنوان: کیا مسلمان کے حق میں اختلاف دارین مانع ارث ہے؟

    سوال: جناب والا گذارش عرض یہ ہے کہ میرے والد صاحب اشرف علی خان ( مرحوم) جوکہ شاہ باد، رامپور کے رہائشی تھے ، سترہ سال کی عمر میں پاکستان آ گئے تھے ۔میٹرک کی تعیلم انہوں نے انڈیا میں حاصل کر لی تھی۔ پاکستان آنے کے بعد دو دفعہ وہ انڈیا اپنے والد اور میرے دادا امجد علی خان( مرحوم )سے ملنے بھی گئے - میرے دادا کی تین اولادین، دو بیٹے ( اشرف علی خان( مرحوم) ، ساجد علی خان( مرحوم ) اور ایک بیٹی( آصف جہاں) ہیں- میں صرف یہ پوچھنا چاہتاہوں کہ کیا شرعی اعتبار سے میرے والد صاحب کا وراثت یا جائیداد میں حصہ ہوگا؟ کیونکہ مجھ تک ایک روایت یا حدیث پہنچی ہے جسکا مفہوم یہ ہے کہ- تین شخص ایسے ہیں جنہیں جائیداد میں حصہ نہی دیا جائیگا- ایک وہ جسنے قتل کیاہو، دوسرا وہ جو بے دین ہو گیا ہو، تیسرا وہ جو وطن سے دور ہو ۔ ایک بات واضح کر دوں کہ خدا نخواستہ کوئی میرے والد کو جائیداد سے بے دخل نہی کیا گیا تھا۔برائے مہربانی اس بارے میں وضاحت فرما دیں-

    جواب نمبر: 159445

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:792-827/L=8/1439

    صورت مسئولہ میں آپ کے دادا امجد علی خان کے انتقال کے بعد آپ کے والد اشرف علی خان ان کے جائیداد وترکہ میں بحیثیت عصبہ وراثت کے حق دار ہیں، خواہ آپ کے دادا ہندوستان میں رہتے ہوں، یا پاکستان میں؛ کیوں کہ ملکوں کا اختلاف مسلمانوں کے حق میں مانع ارث نہیں ہوتا۔ واختلاف الدارین یمنع الإرث ولکن ہذا الحکم فيحق أہل الکفر، لا في حق المسلمین․ ہندیہ: ۶/ ۴۴۶، کتاب الفرائض/ الباب الخامس في الموانع ط: زکریا دیوبند۔ اختلاف الدارین لا یوٴثر في حق المسلمین کما في عامة الشروح․ رد المحتار: ۱۰/ ۵۱۰، کتاب الفرائض، ط: زکریا دیوبند۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند