• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 158642

    عنوان: ووصیت کرنا اسلام میں کیسا ہے ؟ جائز یا نا جائز؟

    سوال: سوال: اسلام میں ووصیت کا کیا درجہ ہے ؟یا شرعاً ووصیت کرنا جائز ہے یا نا جائز؟جب کہ کہیں اس بات کا ثبوت نہیں ملتا کہ ہمارے نبی نے ، صحابہ نے یا کسی خلفائے راشدین نے اپنی ووصیت کی ہو۔ اور ووصیت بھی اس بات کی کرنا کہ میرے جانے کے بعد کتنے دن غم منانا، میری تدفین کس طرح کرنا تدفین کا خرچ کہاں کرنااور میری وراثت کا کس طرح سے حصہ کرنا۔ جب کہ مندرجہ بالا بات باتوں کا خلاصہ قران کریم اور احادیث میں بتلایا جا چکا ہے ۔ اب ان سب باتوں کی ووصیت کرنا شرعاً کیسا۔ برائے مہر بانی حدیث کی روشنی میں جواب دیں عین نوازش ہوگی۔

    جواب نمبر: 158642

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:645-678/L=7/1439

    احکام کے لحاظ سے وصیت کی چار قسمیں ہیں:

    ۱۔ واجب: جبکہ قرضوں کی ادائیگی ،امانتوں کے لوٹانے ،زکوة کی ادائیگی،فرض حج کی ادائیگی،نماز روزوں کا فدیہ اور کفارہ وغیرہ کی ادائیگی کی ہو۔۲۔ مباح: جبکہ مالدار کے لیے وصیت ہو۔۳۔مکروہ ‘جبکہ فاسق وفاجر کے لیے وصیت ہو جس کے بارے میں یقین یا غالب گمان ہو کہ وہ مال فسق وفجور میں صرف کرے گا۔۴۔مستحب:جبکہ کسی تنگ دست یا عالمِ دین یا دین سے وابستہ شخص کے لیے ہو۔وہی علی مافي المجتبی علی أربعة أقسام :واجبة بالزکاة والکفارة وفدیة الصیام والصلاة التي فرط فیہا ومباحة لغنی ومکروہة لأہل فسوق والا فمستحبة․(در مختار مع ردالمحتا۱۰/۳۳۶کتاب الوصایاط:زکریا دیوبند)وصیت کا ثبوت قرآن وحدیث اجماع اور قیاس سے ہے ؛البتہ مرجانے کے بعد اتنے دن غم منانے الخ کی وصیت لغو ہے ،اس میں سے جو وصیت موافق شریعت ہوگی اس پر عمل کا حکم ہوگا ورنہ نہیں۔أما الکتاب العزیز فقولہ تعالی :فی آیة المواریث :یوصیکم اللہ فی أولادکم ․․․من بعد وصیة یوصي بہا أودین․․․وأما السنة فما روي أن سعد بن أبي وقاص ۔رضی اللہ عنہ۔ وہو سعد بن مالک کان مریضاً فعادہ رسول اللہ ﷺ فقال یا رسول اللہ!أوصي بجمیع مالي ،قال:لا ․قال فنصف مالي؟قال:لا ․قال فبثلث مالي ؟فقال علیہ السلام :الثلث والثلث کثیر․(بدائع:۱۰/۴۶۹کتاب الوصایاط:دارالکتب العلمیة بیروت)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند