• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 15296

    عنوان:

    ہمارے پڑوس میں ایک عورت رہتی ہے جس کا اپنا ایک گھر ہے اور اس کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ وہ اپنا گھر اپنے ایک بیٹے کے نام کرنا چاہتی ہے جب کہ سب اولاد راضی ہیں مگر سب سے بڑا بیٹا راضی نہیں ہے۔ کیا اسلام مجھے اجازت دیتا ہے کہ میں گواہ بن کر کاغذاب پر دستخط کروں؟ کیا یہ گناہ ہے؟ میں پریشانی میں ہوں جلد جواب دے کر احسان کیجئے۔

    سوال:

    ہمارے پڑوس میں ایک عورت رہتی ہے جس کا اپنا ایک گھر ہے اور اس کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ وہ اپنا گھر اپنے ایک بیٹے کے نام کرنا چاہتی ہے جب کہ سب اولاد راضی ہیں مگر سب سے بڑا بیٹا راضی نہیں ہے۔ کیا اسلام مجھے اجازت دیتا ہے کہ میں گواہ بن کر کاغذاب پر دستخط کروں؟ کیا یہ گناہ ہے؟ میں پریشانی میں ہوں جلد جواب دے کر احسان کیجئے۔

    جواب نمبر: 15296

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1345=1345/م

     

    پورا گھر صرف ایک بیٹے کے نام کردینا ظلم ہے، آپ اس پر گواہ نہ بنیں، آپ اپنے پڑوس کی عورت سے کہیں کہ وہ اپنا پورا گھر تنہا ایک بیٹے کے نام نہ کرے بلکہ اپنی ضروریات کے بقدر حصہ رکھ کر مابقیہ کو تمام اولاد (مذکر وموٴنث) کے درمیان برابر تقسیم کردے، اور ہرایک کو حصہ دے کر مالک وقابض بھی بنادے، صرف کسی کے نام کردینے سے ملکیت منتقل نہیں ہوگی تاوقتیکہ اس کے قبضہ میں دے کر خود اس سے دستبردار نہ ہوجائے، زندگی میں جائداد کی تقسیم کا یہ افضل طریقہ ہے کہ تمام اولاد کو برابر حصہ دے، ایک لڑکی کو بھی اتنا ہی حصہ دے جتنا ایک لڑکے کو دے، پھر ان میں سے جس کو ضرورت نہ ہو وہ اپنا حصہ دوسرے کو دے سکتا ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند