• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 152934

    عنوان: ہماری والدہ کا انتقال ہو چکا ہے، اُن کے جو زیورات تھے وہ ہمارے والد صاحب نے چار حصوں میں تقسیم کرکے ہم چاروں بھائی بہن کو دے دیا۔ كیا یہ تقسیم صحیح ہے؟

    سوال: ہم دو بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ ہماری والدہ کا انتقال ہو چکا ہے، اُن کے جو زیورات تھے وہ ہمارے والد صاحب نے چار حصوں میں تقسیم کرکے ہم چاروں بھائی بہن کو دے دیا۔ ہمارے والد صاحب کے نام تین پلاٹ ہیں جس میں سے 1.5 ہم بھائیوں نے لیا تھا اور 1.5 والد صاحب نے لیا تھا۔ بڑی بہن کی شادی والد صاحب نے کی تھی۔ چھوٹی بہن کی شادی ہم بھائیوں نے کی ہے۔ اب جو 1.5 پلاٹ ہے اس کا حصہ کس طرح ہوگا؟ بہنوں کو جو جہیز دیا ہے وہ حصے میں لگے گا؟ بڑی بیٹی کو ہم نے 175000/-rs نقد دیئے تھے اس کا کیا ہوگا؟ جو پلاٹ ہیں والد صاحب نے اس میں دو ہم دونوں بھائیوں کے نام کر دئے ہیں جس میں ہم کام کرتے ہیں۔ ایک جو تیسرا پلاٹ ہے اس میں ہم رہتے ہیں ۔ مزید اس کے علاوہ کوئی پراپرٹی نہیں ہے۔ پراپرٹی بیچ کے حصہ دینا جائز ہے؟ اگر ہاں! توجو نقد دیا ہے یا شادی میں لگایا ہے وہ کس اکاوٴنٹ میں جائے گا؟

    جواب نمبر: 152934

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1136-1374/B=12/1438

    صورت مذکورہ میں والدہ محترمہ کے انتقال کے بعد ان کا زیور والد صاحب نے جو چاروں بھائی بہنوں میں برابر تقسیم کیا یہ تقسیم صحیح نہ ہوئی بلکہ زیورات کی پوری مالیت ۲۴/ حصوں میں تقسیم ہوگی جن میں سے ۶-۶/ حصے بھائیوں کو ملیں گے اور تین تین حصے دونوں بہنوں کو ملیں گے اور چھ حصے باپ کو ملیں گے۔ تین پلاٹوں میں سے ایک پلاٹ دونون بھائیوں نے لیے لیا۔ یہ والد صاحب کی طرف سے ان دونوں کی حق میں ہبہ ہو گیا۔ ایک پلاٹ جو والد صاحب نے لیا اور دوسرا پلاٹ جس میں رہائش ہے والد صاحب کے انتقال کے بعد دونوں کی مالیت لگاکر چھ حصوں میں تقسیم ہوگی۔ ۲- ۲/ حصے دونوں بھائیوں کو ملیں گے اور ایک ایک حصہ دونوں بہنوں کو ملے گا۔ اور پہلے ایک پلاٹ میں دو بھائیوں کو ملا ہے وہ ہبہ ہے اور اب جو ملا ہے یہ میراث ہے۔ اور شادی کے موقعہ پر جو کچھ سامان جہیز یا نقد دیا گیا ہے وہ ہبہ ہے۔ لڑکیاں (بہنیں) ان کی مالک ہو گئیں وہ نقد پیسے ترکہ میں یعنی باپ کے انتقال پر ان کی میراث میں شامل نہ ہوں گے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند