• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 15248

    عنوان:

    ہم تین بھائی اور چار بہن ہیں۔ والدین الحمد للہ باحیات ہیں۔ دادا نے گھر بنایا تھا جس میں ہم رہتے ہیں۔ گھر کی حالت خراب ہونے کی وجہ سے اس میں رہنا مشکل ہوگیا ہے۔ میں اس گھر کو گرا کر اسی زمین پر نیا گھر بنا رہا ہوں۔ گھر میں گراؤنڈ فلور اور فرسٹ فلور بنارہا ہوں۔ بھائیوں میں صرف میں اکیلا اس وقت برسر روزگار ہوں۔ اور گھر بنانے میں سارا پیسہ میں ہی لگارہا ہوں۔بہنوں کی شادی ہوگئی ہے۔ بھائیوں کی شادی نہیں ہوئی ہے۔گھر کا سارا خرچ میں ہی دیتاہوں۔ اور بھائی کے کاروبار میں نقصان جو کہ قریب پندرہ لاکھ تھا میں نے ادا کیا اور دوسرے بھائی کو بھی کاروبار کے لیے پیسے دے رہا ہوں۔ ان پیسوں کا میں کوئی سوال نہیں کررہا ہوں۔یہ صرف اس لیے لکھ رہا ہوں کہ آپ حضرات واقف رہیں۔سوال یہ ہے کہ میری بیوی اس بات پر اصرار کررہی ہے کہ میں والد صاحب سے کچھ لکھوالوں، ورنہ پھر میں جو گھر بنارہا ہوں وہ سارے بھائیوں اور بہنوں میں تقسیم ہوگا۔میرے دو بچے بھی ہیں۔ اوراس گھر کو بنانے میں تیس لاکھ روپئے لگ رہے ہیں جو کہ صرف میں دے رہا ہوں۔ ........

    سوال:

    ہم تین بھائی اور چار بہن ہیں۔ والدین الحمد للہ باحیات ہیں۔ دادا نے گھر بنایا تھا جس میں ہم رہتے ہیں۔ گھر کی حالت خراب ہونے کی وجہ سے اس میں رہنا مشکل ہوگیا ہے۔ میں اس گھر کو گرا کر اسی زمین پر نیا گھر بنا رہا ہوں۔ گھر میں گراؤنڈ فلور اور فرسٹ فلور بنارہا ہوں۔ بھائیوں میں صرف میں اکیلا اس وقت برسر روزگار ہوں۔ اور گھر بنانے میں سارا پیسہ میں ہی لگارہا ہوں۔بہنوں کی شادی ہوگئی ہے۔ بھائیوں کی شادی نہیں ہوئی ہے۔گھر کا سارا خرچ میں ہی دیتاہوں۔ اور بھائی کے کاروبار میں نقصان جو کہ قریب پندرہ لاکھ تھا میں نے ادا کیا اور دوسرے بھائی کو بھی کاروبار کے لیے پیسے دے رہا ہوں۔ ان پیسوں کا میں کوئی سوال نہیں کررہا ہوں۔یہ صرف اس لیے لکھ رہا ہوں کہ آپ حضرات واقف رہیں۔سوال یہ ہے کہ میری بیوی اس بات پر اصرار کررہی ہے کہ میں والد صاحب سے کچھ لکھوالوں، ورنہ پھر میں جو گھر بنارہا ہوں وہ سارے بھائیوں اور بہنوں میں تقسیم ہوگا۔میرے دو بچے بھی ہیں۔ اوراس گھر کو بنانے میں تیس لاکھ روپئے لگ رہے ہیں جو کہ صرف میں دے رہا ہوں۔ میں نے والد صاحب سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ تم جیسا چاہو میں لکھ کر دینے کے لیے تیار ہوں۔میرے والد محترم دین دار ہیں۔ میں نے کہا کہ ایسا لکھ دیں کہ والدین کے بعد اگر گھر بکے تو تیس لاکھ روپئے پہلے مجھے واپس دئے جائیں پھر تقسیم ہو، لیکن والد صاحب کو یہ پسند نہیں آیا۔والد صاحب چاہتے ہیں کہ ان کے بعد گھر بکنے کی نوبت نہ آئے۔ آ پ حضرات کوئی طریقہ بتائیں۔ممنون و مشکور ہوں گا۔

    جواب نمبر: 15248

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1526=1247/1430/د

     

    (۱) آپ کی اہلیہ کا مشورہ بھی درست ہے، اگر آپ بغیر کسی معاملہ کے روپیہ مکان میں لگائیں گے تو وہ والد صاحب کی ملکیت ہوکر بعد انتقالِ والد ان کا ترکہ بنے گا، جس میں ان کے سب ورثاء (آپ کے بھائی بہن) شریک ہوں گے، اس پر آپ غور کرلیں۔

    (۲) [جب گھر بکے گا تو تیس لاکھ مجھے ملیں]، اس طرح کی تحریر بھی مبہم بات ہوگی۔ مکان بکے کہ نہ بکے۔ اس وقت تیس لاکھ کی ویلو نہ جانے کیا ہو، نیز بعد انتقال والد یہ تحریر وصیت کے درجہ میں ہوکر کالعدم ہوجائے گی۔ لہٰذا آپ غور وفکر اور مشورہ کے بعد ایسا معاملہ کریں جس کی رو سے آپ تیس لاکھ کا جو معاوضہ یا فائدہ لینا چاہ رہے ہیں، وہ والد کے ذریعہ ان کی زندگی میں آپ کو مل جائے تو بہتر ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند