معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 150817
جواب نمبر: 150817
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 674-607/D=8/1438
مرحوم باپ کے انتقال کے بعد اس کے ترکہ میں جس طرح لڑکوں کا حصہ مقرر ہے اسی طرح بیوی اور بیٹی کا حصہ بھی مقرر ہے، بیٹی یا بیوی کو ان کے حصے سے محروم کرنا سخت گناہ اور غصب کا کام ہے، مکان جب اس قدر تنگ ہے کہ مساحت (پیمائش) کے اعتبار سے اسے تین چار جگہ بانٹنے سے اس کی منفعت فوت ہوجائے گی یعنی وہ کسی کے لیے بھی قابل استعمال نہ رہے گا، تو اب اس کی تقسیم فروخت کرکے ہی ہوسکتی ہے، خواہ کوئی ایک بیٹی یا بیٹا خریدلے یا کوئی دوسرا اجنبی شخص خریدے پھر قیمت باہم تقسیم کرلی جائے، قیمت کے چالیس (۴۰)حصے ہوکر پانچ (۵) حصے بیوی کو سات (۷) حصے بیٹی کو اور چودہ چودہ (۱۴-۱۴) حصے دونوں بیٹوں کو ملیں گے۔
نوٹ: اگر بیٹی فی الحال اپنے حصے کا مطالبہ نہ کرے اور آپ دونوں بھائیوں کو اپنے حصے میں بھی رہنے کی اجازت دیدے تو یہ بھی جائز ہے، اس طرح فوراً مکان بیچنا ضروری نہ ہوگا؛ لیکن بیٹی جب بھی مطالبہ کرے گی تو اُس وقت مکان کی جو قیمت ہوگی اس کے حساب سے ہی رقم ادا کرنی ہوگی اور بیٹی کی رضامندی کے بغیر اس کے حصہ میں رہنا جائز نہیں ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند