معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 149763
جواب نمبر: 149763
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 584-552/N=6/1438
اگر آپ کے والد مرحوم نے کسی مصلحت سے محض فرضی طور پر زمین کی رجسٹری آپ کے بڑے بھائی کا نام کروادی تھی اور حقیقت میں انہوں نے آپ کے بڑے بھائی کو اس زمین کا مالک نہیں بنایا تھا یا مالک بنادیا تھا؛ لیکن اپنی زندگی میں آپ کے بڑے بھائی کو اس زمین پر مالکانہ قبضہ دخل نہیں دیا تھا تو یہ زمین از روئے شرع صرف آپ کے بڑے بھائی کی نہیں ہے؛ بلکہ والد مرحوم کا ترکہ ہوکر حسب حصص شرعیہ مرحوم کے تمام شرعی وارثین کے درمیان تقسیم ہوگی (فتاوی دار العلوم دیوبند ۱۵: ۲۲۷، ۲۲۸، سوال: ۳۰، ۳۱، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند، امداد الفتاوی۳: ۳۶، ۳۷، سوال: ۲۸، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند اور فتاوی عثمانی۳: ۴۴۵، ۴۴۶، مطبوعہ: مکتبہ معارف القرآن کراچی)۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: کل واحد أحق بمالہ من والدہ وولدہ والناس أجمعین (السنن الکبری للبیہقی۷: ۷۹۰)، اعلم أن أسباب الملک ثلاثة: ناقل کبیع وہبة وخلافة کإرث وأصالة الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصید، ۱۰: ۴۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، مستفاد: وہو أي: بیع التلجئة أن یظہرا عقدا وہما لا یریدانہ یلجأ إلیہ لخوف عدو، وہو لیس ببیع فی الحقیقة بل کالہزل (المصدر السابق، کتاب البیوع، باب الصرف ۷: ۵۴۲)، وتتم الھبة بالقبض الکامل ولو الموھوب شاغلاً لملک الواھب لا مشغولا بہ الخ (المصدر السابق، کتاب الھبة، ۸: ۴۹۳)، وکما یکون للواھب الرجوع فیھا - أي: فی الھبة الفاسدة - یکون لوارثہ بعد موتہ؛ لکونھا مستحقة الرد (رد المحتار، ۸: ۴۹۶)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند