عنوان: جائداد کا بٹوارہ
سوال: ہم اپنے ماں باپ کی سات اولاد ہیں، دو بھائی اور پانچ بہنیں۔ میرا بڑا بھائی اپنی شادی کے بعد سے ماں باپ کی نافرمانی اور ان کے ساتھ بدتمیزی کرتا چلا آرہا ہے، والد صاحب کا انتقال ۱۹۹۱ء میں ہوگیا تھا وہ میرے بھائی کے ٹیشن میں ہوا، والد صاحب کی خدمت میں نے ہی کی بھائی نے نہیں کی ہے، اس کے بعد میں اپنی ماں کو لے کر الگ گھر میں رہنے لگا، اور ۲۵/ سال سے ماں کی خدمت میں اور میری بیوی بچے کرتے چلے آرہے ہیں، والد صاحب کی ایک پراپرٹی شہر میں ہے اور ماں کی بھی کچھ پراپرٹی شہر میں ہے جو والد صاحب نے ان کی مہر کے عوض میں ان کے نام کردی تھی، اس ساری پراپرٹی کا بٹوارہ ہماری ماں نے کردیا تھا۔
والدہ صاحبہ کی ایک کھیتی کی زمین تھی جو اُن کو اپنے میکے کے سے ملی تھی، والدہ صاحبہ مجھ سے اور میرے بچوں سے بہت خوش رہتی تھیں، میرے بھائی سے ان کا کوئی واسطہ تقریباً ۲۵/ سال سے نہیں تھا اور وہ ان کے ساتھ بدتمیزی بھی کرتا تھا، اس لیے ماں نے کھیتی والی زمین جو اُن کے میکے سے ملی تھی میرے نام کردی تھی، اب ماں کا انتقال ہو چکا ہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ شریعت کے حساب سے ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب نمبر: 14939401-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 754-722/M=6/1438
والد صاحب مرحوم کی جو پراپرٹی شہر میں تھی اس کا بٹوارہ اگر والدہ نے شریعت کے مطابق کردیا تھا، یعنی تمام ورثہ کو اُن کا شرعی حصہ دیدا تھا تو یہ بٹوارہ درست ہوگیا، اسی طرح جو پراپرٹی والدہ کو حق مہر کے عوض ملی تھی، اس کو تمام اولاد کے درمیان برابری کے ساتھ تقسیم کردی تھی تو یہ تقسیم بھی درست ہوگئی اور اگر صورت حال کچھ اور ہو تو واضح کرکے سوال کریں نیز یہ بھی واضح کریں کہ کھیتی والی زمین ماں نے جو آپ کے نام کردی تھی تو کیا صرف کاغذی طور پر نام کرنا ہوا تھا یا آپ کو قبضہ وعمل دخل بھی سونپ دیا تھا اور آپ اس زمین پر قابض ومالک ہوگئے تھے؟ صورت حال واضح فرماکر سوال دوبارہ کرسکتے ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند