• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 147869

    عنوان: انتقال سے پہلے میراث ختم کر دینا اور بیٹی کو میراث سے محروم رکھنا قرآن مجید کی روشنی میں کیسا ہے؟

    سوال: میرے والد زید کا انتقال ۱۰/۱۱/۲۰۱۶ء کو ہوا ، ان کے پس ماندگان میں ایک بیوی، دو لڑکے اور ایک لڑکی میں ریحانہ ہوں، زید کا ایک فلیٹ (گھر/ مکان) ممبئی میں سال ۱۹۹۲ء سے بڑا بیٹا سنبھال رہا ہے اور اسے کرایہ پر دے کر اس کا کرایہ خود رکھ رہا ہے، سال ۲۰۰۶ء میں والد نے اس بیٹے کو وہی فلیٹ جس کی اس وقت قیمت ۱۸/ لاکھ تھی اس کو ۱۲/ لاکھ میں دیدی کہ کم قیمت پر فلیٹ دے کر اب اِس ۱۲/ لاکھ میں اُس بڑے بیٹے کا کوئی حصہ نہیں رہے گا، مزید یہ کہ اب اس فلیٹ میں جا کر تم خود رہوگے اور اگر خود نہیں رہے اور پھر کرایہ پر دیا تو اس کا کرایہ تم ”مجھے دو گے“۔ لیکن بڑے بیٹے نے اس وقت یعنی سال ۲۰۰۶ء میں روپئے دیئے بغیر ہی فلیٹ ٹرانسفر اور رجسٹریشن اپنے نام کروایا لیا اور پھر سے اس فلیٹ کو کرایہ پر دے دیا اور کرایہ خود رکھنے لگا، والد صاحب نے فلیٹ ٹرانسفر کے وقت سوسائٹی میں یہ کہہ دیا کہ میرے کسی وارث کو اس میں کوئی اعتراض نہیں ہے جب کہ حقیقت یہ تھی کہ ماں، چھوٹے بھائی اور بڑی بہن کو اس بات سے اندھیرے میں رکھا تھا، بڑا بیٹا یہ فلیٹ کرایہ پر دے کر خود اپنے دادا کی پراپرٹی میں دوسری جگہ رہ رہا ہے، فلیٹ (مکان) اپنے نام کروا لینے کے کچھ مہینے بعد پانچ لاکھ روپئے (جو اُس نے فلیٹ کے کرایہ سے ہی جمع کئے تھے) والد کو دیا، اور ایک مہینے بعد وہی پانچ لاکھ روپئے اپنا دوسرا گھر جس کی زمین باپ نے پونہ میں خرید کر ”دونوں بیٹوں“ کو مکان بنانے دی تھی اس پر گھر بنانے کے لیے لے لیا جو کہ اب تک ان ”دونوں لڑکوں“ کے واپس نہیں دیا ہے، سال ۲۰۱۳ء میں اُس نے والد کے اکاوٴنٹ میں ۷/ لاکھ روپئے (جو کہ اِس نے وہی فلیٹ کرایہ پر رکھ کے ۷/ سال (۲۰۰۶ء سے ۲۰۱۳ء) میں جمع کئے تھے) جمع کرائے، اِس طرح بڑے بیٹے نے فلیٹ کی قیمت (۱۹۹۲ء سے ۲۰۱۳ء) تک اُسی فلیٹ کے کرایہ سے ادا کی، یہ سب کام اس پلان کے تحت کیا گیا کہ ساری میراث (پراپرٹی) ہی انتقال سے پہلے ختم کر دی جائے تاکہ قرآن مجید آیت کریمہ جو کہ سورہ نساء کی (۱۱ سے ۱۴) آیتوں میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا حکم میراث سے وابستہ ہے ان کو آسانی سے بائی پاس یا نظر انداز کیا جا سکے کہ انتقال کے بعد میراث بچی ہی نہیں ہے، جب کہ آج کے لحاظ سے والد مرحوم کی پراپرٹی کی قیمت 1.20 کروڑ سے زیادہ ہے۔ خلاصہ تحریر یہ ہے کہ:۔ (۱) جو خرید و فروخت کی شرح (قیمت) سال ۲۰۰۶ء میں میں مقرر کی گئی تھی اس کی ادائیگی سال ۲۰۱۳ء میں پرانی شرح (قیمت) پر ہوگی یا نئی شرح پر ہوگی؟ کیونکہ سال ۲۰۱۳ء میں فلیٹ کی قیمت ۸۰/ لاکھ ہو چکی تھی اور آج سال ۲۰۱۶ء میں انتقال کے بعد ۹۰/ لاکھ ہو چکی ہے۔ (۲) والد کی نصیحت کے باوجود کہ اب اس ۱۲/ لاکھ میں اُس بڑے بیٹے کا حصہ نہیں ہوگا، اُس کا پھر سے اِس ۱۲/ لاکھ میں تقاضہ کرنا کیسا ہے؟ (۳) کیا والد کا اپنی حیات میں دونوں بیٹوں اور دوسری بیوی میں جائداد کا بیشتر حصہ ختم کردینا اور مجھے کچھ نہ دینا درست ہے؟ آج بڑا بیٹا 690000/- میں سے مجھے صرف 1.2 لاکھ بطور میراث دے رہا ہے تو یہ کہاں تک شریعتاً صحیح ہے؟ اگر یہ ناانصافی ہے تو کیا ان کے وارثین کو مرحوم کی غلطی سدھارنا چاہئے؟ اور کیا اس سے مرحوم کو کوئی فائدہ ہو سکتا ہے؟

    جواب نمبر: 147869

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 317-359/N=5/1438

    (۱): جب باپ بیٹے کے درمیان فلیٹ کی خرید وفروخت ۱۲/ لاکھ روپے میں ہوئی تو ایک لمبی مدت گذرنے کے بعد بھی پیسوں کی ادائیگی اسی شرح پر ہوگی، نئی شرح پر نہ ہوگی؛ لہٰذا خریدنے والے بیٹے سے۱۲/ لاکھ روپے سے زیادہ کا مطالبہ درست نہیں؛ البتہ اگر خریدار نے پیسوں کی ادائیگی میں متعینہ مدت سے بلا وجہ بہت زیادہ تاخیر کی اور اس سے بیچنے والے (والد صاحب) کو نقصان اور تکلیف ہوئی اور انہوں نے معاف نہیں کیا تو خریدار کو اس کا گناہ ہوگا۔

    (۲):اگر والد صاحب نے ترکہ میں وہ ۱۲/ لاکھ روپے چھوڑے ہیں تو اس میں حسب شرع میراث جاری ہوگی، اور وہ مرحوم کے تمام شرعی وارثین کے درمیان تقسیم ہوں گے، جن میں مرحوم کا بڑا بیٹا بھی شامل ہے اور والد صاحب کا اپنی حیات میں یہ کہنا کہ اس میں بڑے بیٹے کا حصہ نہ ہوگا، شرعاً وراثت کے باب میں غیر معتبر ہے؛ البتہ اگر وہ اپنی زندگی میں یہ رقم صرف بیوی ، دوسرے بیٹے اور بیٹی(آپ: ریحانہ انصاری) کے درمیان تقسیم کردیتے اور انھیں مالک وقابض بنادیتے تو اس میں شرعاً کچھ حرج نہ تھا۔

    (۳): اگر والد صاحب نے اس طرح اپنی جائدادیں ختم یا بہت زیادہ کم کرکے آپ کو میراث سے محروم کرنے یا آپ کا حصہ کم کرنے کے مقصد سے کیا تو یقیناً انہوں نے غلط وناجائز کام کیا، انھیں ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے تھا،اب اگر آپ انھیں معاف کردیں تو آپ کا ان پر احسان ہوگا اور آپ کو بہت اجر وثواب ملے گا؛ کیوں کہ وہ بہرحال آپ کے والد صاحب ہیں۔

    (۴): مرحوم نے اپنے ترکہ میں جو کچھ چھوڑا، اس کی تمام وارثین کے درمیان شریعت کے مطابق تقسیم ضروری ہے، اور صورت مسئولہ میں مرحوم کے پسماندگان میں صرف ایک بیوی، دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے؛ اس لیے مرحوم کا سارا ترکہ بعد ادائے حقوق متقدمہ علی الارث ۴۰/ حصوں میں تقسیم ہوگا، جن میں سے ۵/ حصے باحیات بیوی کو ، ۱۴، ۱۴/ حصے ہر بیٹے کو اور ۷/ حصے بیٹی (: آپ) کو ملیں گے، تخریج مسئلہ حسب ذیل ہے:

    زوجہ          =             ۵

    ابن           =             ۱۴

    ابن           =             ۱۴

    بنت          =             ۷

     (۵): اگر والد مرحوم نے اپنی حیات میں ہر بیٹے اور باحیات بیوی کو اپنی جائداد وغیرہ سے الگ الگ متعینہ حصہ ہبہ کردیا اور ہر ایک کو اس کے حصہ پرشرعی طور پر قبضہ دخل بھی دیدیا تو ہبہ کردہ چیزیں والد صاحب کی حیات ہی میں ان کی ملکیت سے نکل کر ان لوگوں کی ملکیت میں پہنچ گئیں، اب آپ ان لوگوں سے ہبہ کردہ چیزوں سے کچھ نہیں مانگ سکتیں، البتہ اگر وہ اپنی مرضی وخوشی سے آپ کو کچھ دیں اور اس طرح وہ والد صاحب کی غلطی کی اصلاح کریں تو یہ ان کا بہترین عمل ہوگا، باقی اس پر انھیں مجبور نہیں کیا جاسکتا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند