معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 146128
جواب نمبر: 146128
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 199-273/L=3/1438
اگر آپ کو آپ کے شوہر نے مکان ہبہ کرکے اس مکان کا مالک وقابض آپ کو بنا دیا تھا، اور خود آپ کے شوہر اس مکان سے بے دخل ہو گئے تھے، تو ہبہ تام اور لازم ہو گیا تھا، او رہبہ کی رو سے آپ اس مکان کی مالک ہو گئیں، اگر آپ موہوبہ مکان فروخت کرکے دوسرا مکان خرید کر بچوں کو ہبہ کرنا چاہتی ہیں تو کر سکتی ہیں۔ ”وتتم الہبة بالقبض الکامل“ شامی، ج: ۸/۴۹۳۔
زندگی میں مال و جائیداد کی تقسیم وراثت کی تقسیم نہیں ہے، بلکہ ہبہ اور عطیہ ہے، ہبہ اور عطیہ میں اولاد کے درمیان مساوات و برابری سے کام لینا (خواہ اولاد مذکر ہو یا موٴنث) مستحب ہے، البتہ اگر کسی اولاد کو کسی خاص وجہ مثلا اس کے غریب ہونے یا اہل علم ہونے وغیرہ کی بنا پر کچھ زائد دے دیا جائے تو اس کی بھی گنجائش ہے، بشرطیکہ اس سے مقصود دیگر اولاد کو نقصان پہنچانا نہ ہو۔
”وفی الخانیة: لابأس بتفضیل بعض الأولاد فی المحبة لأنہا عمل القلب وکذا فی العطایا إن لم یقصد بہ الإضرار، وإن قصدہ فسوی بینہم یعطی البنت کالإبن عند الثانی وعلیہ الفتوی؛ وفی الشامی ”أی علی قول أبی یوسف: من أن التنصیف بین الذکر والأنثی أفضل من التثلیث الذی ہو قول محمد رحمہ اللہ“ الدر مع الرد، ج:۸/۵۰۲
اگر فروخت شدہ مکان کی قیمت اولاد کے درمیان تقسیم نہ کی گئی ہو یا فروخت شدہ مکان موہوبہ مکان کے علاوہ ہو تو اگر اشہر حج داخل ہو جائے اور آپ کے پاس اتنی رقم ہو کہ جس سے آپ کے اپنے اور محرم کے آنے جانے کا خرچ پورا ہوسکے، تو حج فرض ہو جائے گا۔
”ثم ما ذکر من الشرائط لوجوب الحج من الزاد والراحلة وغیر ذلک یعتبر وجودہا وقت خروج أہل بلدہ إلی مکة، حتی لو ملک الزاد والراحلة فی أوّل السنة قبل أشہر الحج وقبل أن یخرج أہل بلدہ إلی مکة فہو فی سعة من صرف ذلک إلی حیث أحب“۔ ہندیہ، ج: ۱/۲۸۳۔
”قولہ: ذی زاد وراحلة: أفاد أنہ لایجب إلا بملک الزاد وملک أجرة الراحلة“ شامی: ۳/۴۵۸۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند