• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 146128

    عنوان: زندگی میں مال و جائیداد کی تقسیم وراثت کی تقسیم نہیں

    سوال: بخدمت عالی جناب مفتی صاحب،میرا نام کنیز فاطمہ زوجہ جناب محمد ظفرعلی صاحب مرحوم، عمر۵۵سال، متوطن کریم نگر،میرا مکان 210گز جس کی مالیت 60سے 70لاکھ ہے جومیرے نام پرہے جس کو میرے شوہر نے ہبہ کردیا تھا۔اور میں نے اس پر قبضہ حاصل کرلیا تھا۔۲ سال پہلے میرے شوہر کا انتقال ہوچکا ہے ۔مجھے ۳ لڑکے اور ۴ لڑکیاں ہیں۔میرے شوہر پر کم وبیش ۲ لاکھ کا قرض تھا جس میں سے میں نے 1لاکھ روپئے ادا کئے اور ایک لاکھ روپئے اداہونا ہے ۔میرے شوہر مرحوم نے حیات ہی میں بارہا کہا تھا کہ لڑکے اور لڑکیوں کو زمین دیں رقم نہ دیں کیونکہ ان کے پاس میری نشانی رہے گی۔لہذا میرا ارادہ ہے کہ اس زمین کو فروخت کرکے کہیں بڑی زمین دیکھ کراُس میں سب کو حصہ دوں۔تو کیایہ تقسیم کاعمل درست ہے ؟ (۱) میں اپنی حیات ہی میں اپنے لڑکے اور لڑکیوں کے درمیان تقسیم کرکے ان کو قبضہ دلانا چاہتی ہوں میرے لئے یہ عمل شرعاً درست ہے یا نہیں؟ اگر درست ہے تو کس کو کتنا حصہ دوں؟ (۲) میں اپنے ذاتی مکان کو فروخت کرنے کے بعد کرایہ کے مکان میں رہوں گی یا کسی بیٹے کے ساتھ رہوں گی تب مجھے اس مکان کی قیمت سے جو رقم حاصل ہوگی تخمیناً اندازتاً 60سے 70لاکھ رہے ۔ تو کیا اتنی رقم آنے پر حج فرض ہوجائے گا؟ (۳) اگر مجھ پر حج فرض ہوجائے توکیا محرم کا حج کا خرچ بھی میرے اوپر ہے ؟ جبکہ میرے پاس ایسا کوئی محرم نہیں ہے جس پر حج فرض ہے اور وہ جانے کا ارادہ رکھتا ہو۔ازراہِ کرم تشفی بخش جواب سے نوازیں عین نوازش ہوگی۔

    جواب نمبر: 146128

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 199-273/L=3/1438

     

    اگر آپ کو آپ کے شوہر نے مکان ہبہ کرکے اس مکان کا مالک وقابض آپ کو بنا دیا تھا، اور خود آپ کے شوہر اس مکان سے بے دخل ہو گئے تھے، تو ہبہ تام اور لازم ہو گیا تھا، او رہبہ کی رو سے آپ اس مکان کی مالک ہو گئیں، اگر آپ موہوبہ مکان فروخت کرکے دوسرا مکان خرید کر بچوں کو ہبہ کرنا چاہتی ہیں تو کر سکتی ہیں۔ ”وتتم الہبة بالقبض الکامل“ شامی، ج: ۸/۴۹۳۔

    زندگی میں مال و جائیداد کی تقسیم وراثت کی تقسیم نہیں ہے، بلکہ ہبہ اور عطیہ ہے، ہبہ اور عطیہ میں اولاد کے درمیان مساوات و برابری سے کام لینا (خواہ اولاد مذکر ہو یا موٴنث) مستحب ہے، البتہ اگر کسی اولاد کو کسی خاص وجہ مثلا اس کے غریب ہونے یا اہل علم ہونے وغیرہ کی بنا پر کچھ زائد دے دیا جائے تو اس کی بھی گنجائش ہے، بشرطیکہ اس سے مقصود دیگر اولاد کو نقصان پہنچانا نہ ہو۔

    ”وفی الخانیة: لابأس بتفضیل بعض الأولاد فی المحبة لأنہا عمل القلب وکذا فی العطایا إن لم یقصد بہ الإضرار، وإن قصدہ فسوی بینہم یعطی البنت کالإبن عند الثانی وعلیہ الفتوی؛ وفی الشامی ”أی علی قول أبی یوسف: من أن التنصیف بین الذکر والأنثی أفضل من التثلیث الذی ہو قول محمد رحمہ اللہ“ الدر مع الرد، ج:۸/۵۰۲

    اگر فروخت شدہ مکان کی قیمت اولاد کے درمیان تقسیم نہ کی گئی ہو یا فروخت شدہ مکان موہوبہ مکان کے علاوہ ہو تو اگر اشہر حج داخل ہو جائے اور آپ کے پاس اتنی رقم ہو کہ جس سے آپ کے اپنے اور محرم کے آنے جانے کا خرچ پورا ہوسکے، تو حج فرض ہو جائے گا۔

    ”ثم ما ذکر من الشرائط لوجوب الحج من الزاد والراحلة وغیر ذلک یعتبر وجودہا وقت خروج أہل بلدہ إلی مکة، حتی لو ملک الزاد والراحلة فی أوّل السنة قبل أشہر الحج وقبل أن یخرج أہل بلدہ إلی مکة فہو فی سعة من صرف ذلک إلی حیث أحب“۔ ہندیہ، ج: ۱/۲۸۳۔

    ”قولہ: ذی زاد وراحلة: أفاد أنہ لایجب إلا بملک الزاد وملک أجرة الراحلة“ شامی: ۳/۴۵۸۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند