• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 11889

    عنوان:

    وراثت کے معاملہ میں خانگی نزاع اور صلہ رحمی

    سوال:

    ہم لوگ اپنے دادا کے گھر سے بائیس سال سے الگ رہ رہے ہیں۔ اور الگ رہنے کی وجہ کوئی تنازعہ نہیں بلکہ میرے والد کی نوکری دوسرے شہر میں ہے اور مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے دادا کے گھر میں چچا کی چلتی ہے۔ اس لیے اکثر تنازعہ ہوتا ہے۔ ہمیں کئی بار انھوں نے گھر سے ہکالا بھی ہے۔ لیکن میرے والدین صلہ رحمی کی وجہ سے جانا نہیں چاہتے لیکن جب بھی جاؤ تو اور بھڑک جاتے ہیں۔ دادی دادا سیدھی بات نہیں کرتے اور پرانی باتوں کو نکال کر مسئلہ پیدا کرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ تو ہلکٹ ہے حصہ کے لیے آتا ہے۔ جب کہ دادا نے تمام اولاد کو حصہ دے دیا ہے سوائے میرے والد کے اور ساتھ ساتھ وہ لوگ ہمارے گھر والوں کی بات جو اچھے انداز میں کی گئی ہو بدل کر بات کو بتاتے ہیں۔ آخری بار جب ہم گئے تھے تو دادا نے والد صاحب سے کہہ دیا ہے کہ صرف تو گھر میں آسکتا ہے نہ تیری بیوی آئے گی اور نہ ہی تیرے بچے۔ تو (۱)کیا ایسی صورت میں وہاں جانا چھوڑ دینا جائز ہوگا اور صلہ رحمی نہ کرنے کی وجہ سے گناہ تو نہیں ہوگا؟ (۲)اگر والد صاحب بھی جانا چھوڑ دیں توکیا وہ بھی گناہ گار ہوں گے؟ (۳)اور کیا دادا کے لیے یہ جائز ہے کہ ساری میراث اپنی زندگی میں ایک لڑکے کو چھوڑ کربقیہ دوسرے سب بچوں کو دے دیں؟

    جواب نمبر: 11889

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ب): 50=54-1/1431

     

    آپ لوگ بھی کبھی کبھار جاکر دادا جان کی خیرت معلوم کرلیا کریں، اور آپ کے والد صاحب کو تو بہرحال جاتے رہنا چاہیے اور برابر تعلق رکھنا چاہیے۔ آپ کے چچا نے آپ کے دادا کو اپنے شیشے میں اتارلیا ہے ورنہ دادا کو ایسی بات نہیں کہنی چاہیے۔ جب دادا جان نے سب لڑکوں کو حصے دیے تو آپ کے والد صاحب کا حصہ بھی دیدینا چاہیے، صرف ایک لڑکے کاحصہ روک رکھنے کی کوئی معقول اور شرعی وجہ سمجھ میں نہیں آئی۔ اگر بلاوجہ انھوں نے آپ کے باپ کا حصہ نہیں دیا تو خود اپنی عاقبت برباد کریں اورجنت سے محروم کردیئے جائیں گے۔ ہرمسلمان کو خدا ورسول کے حکموں پر چلنا چاہیے، ضد اور اپنی من مانی نہ کرنی چاہیے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند