• متفرقات >> تاریخ و سوانح

    سوال نمبر: 64252

    عنوان: میں نے انٹرنیٹ میں دیکھا کہ شیعہ یہ کہتے ہیں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے ذمہ دار حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہیں؟

    سوال: میں نے انٹرنیٹ میں دیکھا کہ شیعہ یہ کہتے ہیں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے ذمہ دار حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہیں، اور میں نے یہ سنا ہے کہ حضرت فاطمہ کا جب انتقال ہوگا تو انہوں نے وصیت کی تھی کہ ان کے جنازے میں حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کو شریک نہ کیا جائے ۔ آخیر ایسا کیا واقعہ ہوا تھا کہ حضرت فاطمہ ان سے اتنی زیادہ ناراض تھیں کہ انہیں اپنے جنازے میں شریک بھی ہونے کی اجازت نہیں دی۔ براہ کرم، قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دیں۔ جزاک اللہ خیر

    جواب نمبر: 64252

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 552-549/H=7/1437 امیر الموٴمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو شیعہ صاحبان کیوں ذمہ دار ٹھیراتے ہیں؟ حدیث شریف میں ہے کہ مرض الوفات میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ حضرت فاطمة الزہراء رضی اللہ عنہا کو بلایا اور ارشاد فرمایا کہ میں اس مرض میں وفات پاجاوٴں گا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا رونے لگیں، پھر آپ نے ان سے فرمایا کہ میرے اہل میں سب سے پہلے (عالم برزخ میں) آکر تم مجھ سے ملوگی تو وہ ہنسنے لگیں بعض ازواجِ مطہرات (اور غالباً حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا) نے رونے اور ہنسنے کا سبب معلوم فرمایا تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے دونوں باتیں بتائیں۔ (مشکاة ص: ۵۴۹، باب وفاة النبی صلی اللہ علیہ وسلم) اس حدیث شریف سے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے جلد وفات ہونے کی پیشین گوئی فرمائی تھی اور اس سے خوش ہوکر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ہنسنے لگی تھیں اگر کسی درجہ میں شیعہ صاحبان کو ذمہ داری کسی کے سر تھونپنی ہی تھی تو حضرت نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو ذمہ دار ٹھیراتے بلکہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا اس پیشین گوئی سے خوش ہوئیں تو وہ خود ہی اپنی وفات کی ذمہ دار ٹھہریں ورنہ بجائے خوش ہونے کے ان کو چأہیے تھا کہ اس پیشین گوئی سے ناخوش ہوکر اس کو رد فرمادیتیں، اسی طرح حضراتِ شیخین (حضرت ابوبکر صدیق وحضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما) سے متعلق یہ وصیت فرمانا کہ ان کو جنازہ میں شریک نہ کیا جائے، سیدہ حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا پر تہمت ہے، حقیقت یہ ہے کہ حضرت سیدہ کے مرض الوفات میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہٴ مطہرہ حضرت بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے تیمار داری کے خصوصی فرائض انجام دیئے، حضرت سیدہ رضی اللہ عنہا نے یہ وصیت فرمائی تھی کہ میری وفات کے بعد مجھ کو غسل حضرت اسماء دیں گی، چنانچہ وصیت کے مطابق انھوں نے غسل دیا، ان جیسے امور سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت صدیق اکبر بلکہ ان کا گھرانہ آلِ رسول کے گھرانہ کے ساتھ دکھ درد میں شریک ایک دوسرے سے بہت قریب اور باہم شیر وشکر تھے اور یہی اوصافِ حمیدہ اور اخلاقِ فاضلہ تمام صحابہ وصحابیات رضی اللہ عنہم اجمعین کے تھے جو قرآنِ کریم احادیث مبارکہ اور صحیح تاریخ سے ثابت ہیں، اس کے برخلاف چیزیں جھوٹے راویوں کی روایتیں اور اہل باطل کے گھڑے ہوئے قصے کہانیاں، نرے افسانہ کے قبیل سے اور بالکل غیر معتبر ہیں یا پھر مأوّل ہیں۔ الغرض جب حضرت سیدہ فاطمة الزہراء رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوگیا اور وصیت کے مطابق غسل وکفن دلاکر جنازہ تیار ہوگیا تو حضراتِ صحابہٴ کرام بشمول حضرت صدیق اکبر وفاروق اعظم رضی اللہ عنہما بھی جنازہ میں شریک ہوئے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ نے حضرت علی کرم اللہ وجہ سے نماز پڑھانے کی درخواست کی اور کہا کہ چلئے آگے بڑھ کر نماز جنازہ پڑھائیے حضرت شیر خدا علی مرتضی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا میں آگے نہیں بڑھ سکتا، آپ ہی آگے بڑھ کر نماز پڑھائیں ما کنت لأتقدم وأنت خلیفة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتقدم أبوبکر وصلّی علیہا (کنز العمال: ج۶ ص۳۶۶) تینوں خلفاء راشدین (صدیق اکبر، فاروقِ اعظم، عثمان غنی) رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی اولاد اور اولاد کی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسل پاک سے بکثرت رشتہ داریاں حتی کہ اپنے اپنے بچوں کے اسماء خلفائے راشدین کے اسماء کے مطابق رکھنا صاف دلالت کرتا ہے کہ یہ سب حضرات رحماء بینہم کا مظہر اتم تھے، جیسا کہ کتب حدیث وتواریخ اس پر شاہد عدل ہیں، اگر اس کی کچھ جھلک دیکھنا ہو تو حضرت اقدس الحاج مفتی محمد فاروق صاحب شہید رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ”امیرالموٴمنین خلیفة المسلمین سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ“ (مطبوع مکتبہ محمودیہ میرٹھ) کا مطالعہ کریں۔ پس اہل تشیع خواہ روافض ہوں یا خوارج ان کی وہ روایات کہ جن سے خلفائے راشدین اور ان کی ازواجِ مطہرات بناتِ طاہرات یا دیگر صحابہٴ کرام اور ان کے سچے متبعین رضی اللہ عنہم اجمعین کی عیب جوئی ہوتی ہے وہ اکثر وبیشتر ناقابل اعتبار اور ہفوات کے قبیل سے ہیں، یا پھر بعض میں تاویل صحیح کی گنجائش ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند