• متفرقات >> تاریخ و سوانح

    سوال نمبر: 610135

    عنوان:

    فتح شام كے بعد حضرت عمر كا زمین تقسیم نہ كرنا

    سوال:

    سوال : ابھی ابھی ایک عالم کا بیان سونا جس میں وہ کہ رہے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ آپ غنائم کو تقسیم کر دیا کرتے تھے غانمین اور مجاہدین کے درمیان۔ ۔ ملکِ شام فتح ہوا۔ شام کی زمین سب سے عمدہ زمین تھی۔ عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ دیکھا کہ أگر ملکِ شام کی زمین مجاہدین میں تقسیم کر دی گئی تو یہ اس کے مالک بن جائیں گے، اور ان کے مرنے کے بعد ان کی اولاد مالک ہو جائے گی۔ عام مسلمانوں کو اس سے فائدہ نہیں پہنچے گا۔ لہذا حضرت عمر نے یہ فیصلہ کیا کہ ملکِ شام کی زمین مجاہدین میں تقسیم نہیں کی جائے گی۔ سخت اختلاف ہو گیا کہ عمر یہ کیا کر رہے ہو؟ اللہ کے نبی نے یہ نہیں کیا۔ ایک جماعت بن گئی اور اس جماعت کے امیر بنے حضرت بلال۔ سخت اختلاف کیا حضرت عمر سے۔ حضرت عمر بہت تنگ آ گئے۔ حضرت عمر نے دعا کی: اللہم اکفنی ببلال وأصحابہ۔ اے اللہ، بلال اور اس کے ساتھیوں سے میری کفایت کر۔ ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ حضرت بلال کا اور ان کے ساتھیوں کا انتقال ہو گیا۔ کیا یہ واقعہ صحیح ہے؟ کیا عمرؓ کی دعا کی وجہ سے حضرت بلالؓ کا انتقال ہوا؟ حضرت بلالؓ کا انتقال کب ہوا؟

    جواب نمبر: 610135

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 828-619/D=08/1443

     یہ واقعہ صحیح روایت كےساتھ بیہقی كی سنن كبریٰ میں اس طرح مذكور ہے: "أنّ عمر بن الخطّاب لمّا افتتح الشّام، فقام إليه بلال فقال: لتقسمنّها أو لنتضاربنّ عليها بالسيف، فقال عمر – رضي الله عنه – لولا أني أترك يعني الناس بباناً لا شيء لهم ما فتحت قرية إلا قسمتها سهمانا كما قسم رسول الله – صلى الله عليه وسلم – خيبر، ولكن أتركها لمن بعدهم جرية يقسمونها (6/517) پھر نافع مولی ابن عمر كی منقطع سند میں حضرت عمر كے یہ الفاظ مذكور ہیں: "فدعا عليهم فقال: اللهم اكفني بلالا وأصحاب بلال. یہ روایت مرسل اور منقطع ہے جو قابل احتجاج نہیں ہے‏، اور یہ كہنا كہ حضرت عمر كی بددعا سے مذكورہ صحابہ كا انتقال ہوا‏، اس كا كوئی ثبوت نہیں ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند