• متفرقات >> تاریخ و سوانح

    سوال نمبر: 600273

    عنوان:

    خلفا ئے راشدین کن لوگوں کو کہا جاتا ہے؟

    سوال:

    میرا سوال ہے کہ کیا اہل سنت ک نزدیک خلفاء چار ہیں یا زاید ہیں بعض حضرات کہتے ہیں کی صرف حضرت ابو بکر ، حضرت عمر ، حضرت عثمان و حضرت علی رض خلفاء الراشدین ہیں بعض کہتے ہیں کہ ایک حدیث جسمیں خلفاء کا وقت تیس سال ہے الخلافة بعدی فی أمتی ثلاثون سنة ثم ملک بعد ذلک (مسند احمد ، ابو یعلی ، ترمذی ، ال جامع الصغیر 3341) وہ اس حدیث کے ھوالے سے کہتے ہیں کہ حضرت حسن کی چھ ماہا خلافت بھی خلافت راشدہ میں داخل ہے اور حضرت حسن بھی خلفاء الراشدین میں ہیں بعض کہتے ہیں کہ حضرت معاویہ بن ابی صوفیان بھی خلفاء الراشدین میں ہیں ۱) صحیح قول بتا دیں کہ کون کون خلفاء الراشدین میں ہیں۔

    ۲) حضرت عمر بن عبدالعزیز کو بھی خلفاء الراشدین میں کیوں شامل کیا جاتا ہے ۔

    ۳) نبی کریم علیہ الصلاة والسلام کی تیس سال حدیث کے مطابق تو عمر بن عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ خلفاء میں شامل نہیں ہو نے چاہیئے لیکن ہم اہل سنت کے یہاں آپکو خلفاء الراشدین میں کیوں شامل کرتے ۔

    ۴)نیز اگر حضرت حسن بن علی پانچویں خلیفہ الراشد ہیں تو حضرت عمر بن عبدالعزیز کو پانچواں خلیف الراشد کیوں کہتے ہیں وضاحت فرما دیں۔

    جواب نمبر: 600273

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:134-226t/L:=1/1443

     اہل السنت والجماعت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نبء پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ بلا فصل حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ،ان کے بعد حضرت عمر ،ان کے بعد حضرت عثمان غنی،اور ان کے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ہیں ،بالترتیب یہ چاروں حضرات خلفاء راشدین ہیں جن کی خلافت کی پیشن گوئی قرآن کریم میں دی گء ہے،اور سوال میں ذکر کردہ حدیث کہ میرے بعد خلافت ۰۳سال رہے گی اس کے بعد بادشاہت اور ملوکیت شروع ہوجائے گی اس سے مراد خلافت راشدہ ہے جس کی مدت حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت پر جا کر ختم ہوجاتی ہے؛کیونکہ مستند تاریخی کتابوں میں یہ بات درج ہے کہ خلفاء اربعہ کی خلافت کی مدت ۲۹سال اور ۶ماہ پر جاکرختم ہوجاتی ہے ابھی چونکہ ۰۳سال پورا ہونے میں تقریباً چھ ماہ باقی تھے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ٰ کی شہادت ہوگء تھی ان کی شہادت کے بعد اکثر مسلمانوں نے حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرلی تھی اس کے بعد حضرت حسن رضی اللہ نے تقریبا ۶ماہ خلافت کی جب خلافت کے ۰۳سال مکمل ہوگئے تو انہو ں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیشن گوئی کے مطابق حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صلح کرتے ہوئے خلافت کی ذمہ داری ان کے حوالے کردی تھی اس اعتبار سے حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کا زمانہ بھی خلافت راشدہ میں داخل ہوگا،اور حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی خلفاء راشدین میں شامل ہونگے،لہذاجو لوگ مذکورہ حدیث کے حوالے سے حضرت حسن کی خلافت کو خلا فت راشدہ میں داخل کرکے ان کو خلیفہ راشد کہتے ہیں ان کی بات درست ہے،لیکن حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلفاء راشدین کی فہرست میں شامل نہ ہوں گے؛کیونکہ خلافت راشدہ کے لئے ہجرت کرنا شرط ہے جیسا کہ "ازالةالخلفاء عن خلافة الخلفاء ج /۱/ص /۰۱میں اس کی صراحت کی گء ہے چنانچہ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "از جملہ لوازم خلافت خاصہ آنست کہ خلیفہ از مہاجرین اولین باشد"اور یہ شرط حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ ٰ میں مفقود ہے ؛اس لئے ان کو خلفاء راشدین میں شمار کرنا درست نہ ہوگا،رہا مسئلہ حضرت عمر بن عبد العزیز کو خلفاء راشدین میں شمار کرنے کا مسئلہ تو چونکہ خلفاء راشدین میں شمار ہونے کے لئے صحابی ہونا ضروری ہے جیسا کہ آپ کے مسائل اور ان کا حل ج/۱ /ص ۰۳۳پر اس کی صراحت کی گء ہے اور یہ شرط حضرت عمر بن عبد العزیز کے اندر مفقود ہے ؛کیونکہ وہ صحابی نہیں ہیں بلکہ تابعی ہیں اس لئے ان کو خلفاء راشدین میں شمار کرنا درست نہ ہوگا جہاں تک تعلق ہے اہل سنت و الجماعت کے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو خلفاء راشدین میں شامل کرنے کا تو اگر چہ بعض اہل السنة الجماعت حضرات نے ان کو خلفاء راشدین میں شمار کیا ہے مگر اس معنی کر نہیں کہ کہ یہ بھی اس حدیث کا مصداق ہیں جس میں خلافت راشدہ کی پیشن گوئی دی گئی ہے بلکہ وہ حضرات ان کو اس اعتبار سے خلیفہ راشد کہتے ہیں کہ یہ بذات خود عادل اور خیر خواہی کرنے والے اچھے خلیفہ تھے اور ان کی خلافت میں رشد پاء جاتی تھی،اور ان کی خلافت،خلافت راشدہ کے مشابہ تھی اس اعتبار سے انہونے ان کو خلیفہ راشد کہا ورنہ در حقیقت یہ خلفاء راشدین کے مصداق نہیں ہیں_

    حدثنی سفینة قال:خطبنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال:"الخلافة فی امتی ثلاثون سنة ثم یکون ملک"ثم قال لی سفینة:امسک خلافة ابی بکر وخلافة عمر اثنتی عشرة سنة وستة اشہر،وخلافة عثمان اثنتی عشرة سنة،وخلافة علی رضی اللہ عنہ تکملة الثلاثین قلت:معاویة؟قال:کان اول الملوک وتابعہ حماد بن سلمة عن سعید بن جمہان(المدخل الی سنن الکبری للبیہقی:باب اقاویل الصحابة رضی اللہ عنہم:ج ۱/ص ۱۱۶)واخرجہ البیہقی فی المدخل عن سفینة ان اول الملوک معاویة رضی اللہ عنہ والمراد بخلافة النبوة ہی الخلافة الکاملة وہی منحصرة فی الخمسة فلا یعارض الحدیث لا یزال ہذا الدین قائما حتی یملک اثنی عشر خلیفة لان المراد بہ مطلق الخلافة واللہ اعلم(عون المعبود وحاشیة ابن القیم :باب فی الخلفاء/ ۲۱/ ۰۶۲)الحسن بن علی آخر الخلفاء بنصہ(ازالة الخفاء ص ۳۴۱ہو آخر الخلفاء الراشدین بنص جدہ صلی اللہ علیہ وسلم خلیفة حق وامام عدل وصدق تحقیقا لما اخبر لہ جدہ الصادق المصدق یقولہ الخلافة الخ منصوصا علیہا وقام علیہ اجماع من ذکر فلا مریة من حقیقتہا اہ(صواعق محرقہ:ص ۱۸)لما قال العلامة ملا علی القاری رحمہ اللہ: وخلافة النبوة ثلاثون سنة _منہا خلافة الصدیق سنتان وثلاثة اشہر وخلافة عمر عشر سنین ونصف وخلافة عثمان اثنتا عشرة سنة وخلافة علی اربع سنین وتسعة اشہر وخلافة ابنہ ستة اشہر واول ملوک المسلمین معاویة وہو افضلہم لکنہ انما صار اماما حقا لما فوض الیہ الحسن بن علی الخلافة فان الحسن بایعہ اہل العراق بعد موت ابیہ ثم بعد ستة اشہر فوض الامر الی معاویة والقصة مشہورة وفی الکتب المبسوط مستورہ(شرح الفقہ الاکبر ص ۸۶، ۹۶)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند