• متفرقات >> تاریخ و سوانح

    سوال نمبر: 177049

    عنوان: امیریزید بن معاویہؓ کے بارے میں

    سوال: امیریزید بن معاویہ کے بارے میں اشکالات درج ذیل سوالات کے جوابات عنایت فرمائیں۔ (۱) کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیر القرون، جنہیں قرون ثلاثہ مشہود لھا بالخیر کہا جاتا ہے ، کی کوئی خبر دی تھی یا نہیں؟ کیا خیر القرون کے متعلق احادیث صحیح ہیں یا غلط؟ (۲) خیر القرون کی احادیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ اس کے بعد لوگوں کی قسمیں ان کی شہادتوں پر اور ان کی شہادتیں ان کی قسموں پر سبقت کریں گی، یعنی لوگ بلا طلب قسمیں اور وہ بھی جھوٹی قسمیں اٹھانے اور جھوٹی گواہی دینے پر جری ہو جائیں گے ۔ تو کیا جھوٹی قسمیں اور جھوٹی گواہیاں بڑا گناہ ہیں یا (مبینہ ریاستی سرپرستی میں) رسولﷺ کے ایک نواسے کو زہر دینا دوسرے کو کنبے سمیت بے دردی سے ذبح کر دینا، مدینے کو تاخت وتاراج کرنا، وہاں کی ایک ہزار عورتوں کو مبینہ طور پر بدکاری سے حاملہ کرنا وغیرہ وغیرہ بڑے جرائم ہیں؟ اگر مذکورہ سنگین ترین جرائم بلا طلب جھوٹی گواہیوں اور قسموں سے کم تر اور ہلکے ہیں تو وضاحت مطلوب ہے ۔ اگر یہ جرائم نسبتاً کہیں زیادہ سنگین ہیں تو کیا وجہ ہے کہ خیر القرون کو بلاطلب جھوٹی گواہیوں اور قسموں کے نسبتاً چھوٹے گناہ سے تو محفوظ رکھنے کا خاص اہتمام کیا گیا جیسا کہ خیر القرون کی احادیث سے واضح ہے تاکہ خیر القرون کی خیریت پر حرف نہ آئے لیکن مذکورہ بالا خبیث ترین کاموں سے خیر القرون کو آلودہ کر دیا گیا، تو کیا ان کاموں سے خیر القرون کی خیریت بحال اور قائم ودائم رہی؟ (۳) کیا صحابہ کرام کو بکلمہ "کنتم" نہ کہ بکلمہ"انتم" اللہ تعالی نے قران میں بہترین امت قرار نہیں دیا اور انہیں اس کی وجہ یہ نہیں بتائی گئی کہ تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے ہو (کتم خیر امة اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنہون عن المنکر۔۔ الأیة)؟ (۴) کیا احادیث صحیحہ میں نہی عن المنکر کی اعلی ترین صورت یہ بیان نہیں کی گئی کہ برائی کو بزور بازو کچل دیا جائے اور اس سے ادنی صورت زبان سے منع کرنے کی اور اس سے بھی کم تر صورت برائی کو صرف دل میں برا سمجھ لینے کی بیان کی گئی ہے اور جسے اضعف الایمان قرار دیاگیا ہے ؟ تو اگر حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت عبد اللہ بن عباس رض جیسے سینکڑوں صحابہ کرام (جنہوں نے یزید کی بیعت کر رکھی تھی) اورامام زین العابدین جیسے تابعین عظام کی موجودگی میں اگر حکومتی سطح پر مذکورہ بالا خبیث ترین جرائم کا ارتکاب ہوتا رہا ہو تو ان صحابہ کرام اور تابعین نے نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیا تھا یا نہیں؟ اگر نہیں تو کیا اللہ نے ان اصحاب رسول کو جو امر بامعروف اور نہی عن المنکر کی بناپر بہترین امت قرار دیاتھا تو کیا (معاذ اللہ ثم معاذ اللہ) جھوٹ بولا تھا؟ کھل کر بات کی جائے شرمانے کی ضرورت نہیں۔ (۵) اگر نہی عن المنکر سے کام لیا تھا تو نہی عن المنکر کی کون سی صورت انہوں نے اختیار فرمائی تھی؟ اگر وہ برائی کو بزور بازو روکنے کی صلاحیت سے محروم ہو کر نہی عن المنکر کے ادنیٰ یا ادنیٰ ترین درجے پر آجانے پر مجبور ہو گئے تھے تو کیا جب قران میں اللہ نے انہیں بہترین امت قرار دیاتھا تو اللہ کو معلوم تھا یا نہیں کہ میرے رسول کے یہ اصحاب اس ناگفتہ بہ حالت پر آجائیں گے یا علم نہیں تھا؟ اگر علم نہیں تھا تو اللہ کی طرف، نعوذ باللہ، جہالت کی نسبت ہوتی ہے اور جو بد بخت ایسا سمجھے وہ بالاتفاق کافر اور گستاخ ہے ۔ اگر علم تھا تو کیا اللہ نے ان اصحاب رسوئل کو جو بہترین امت قرار دیا تھا اور یہ جو اللہ کے رسولﷺ نے واضح فرمایاتھا کہ بلا طلب جھوٹی قسموں اور شہادتوں جیسے گناہوں سے خیر القرون کو محفوظ رکھا جائے گا کہ یہ کام بعد میں ہونگے نہ کہ خیر القرون میں، تو کیا اللہ اور رسولﷺ نے (معاذ اللہ ثم معاذ اللہ)اسے خیر القرون ٹھہرانے کاجھوٹ بولاتھا جبکہ اللہ کو پتہ بھی تھا کہ زیر بحث خبیث ترین جرائم اس دور میں سرزد ہونگے ؟ کھل کر جواب دیجیے ، شرمانے کی ضرورت نہیں۔ (۶) آج اگر کوئی یہودی یا عیسائی ھم سے پوچھ لے کہ جس زمانے میں مذکورہ بالا خبیث ترین جرائم کا صدور اس وقت کی حکومت کی مرضی اور کوشش سے ہوا ہو اور صحابہ کرام نہ صرف خاموش تماشائی بنے رہے ہوں بلکہ عبد اللہ بن عمر رض جیسے صحابی یزید کی بیعت توڑنے سے سختی سے منع فرما رہے ہوں اور امام زین العابدین جیسے تابعین مبینہ طور پر بے بس، مجبور، مقہور، لاچار، خستہ و درماندہ ہوں تو کیا تمہارے رسول نے اسی زمانے کو خیر القرون اور تمہارے اللہ نے انہی اصحاب رسول کو بہترین امت قرار دیاتھا؟ اگر ماشاء اللہ یہ بہترین لوگ تھے اور زمانہ خیر القرون تھا تو بتائیے کہ شر القرون کیا ہوتا ہے ؟ ایسے سوالوں پر ہم خاموش رہیں یا ہنس کر دکھا دیں تو کیا یہ صورت حال ہمارے لئے قابل قبول ہوگی یا شرم ناک ہوگی؟ (۷) کیا یہ سمجھنا اور فیصلہ کرنا کہ یزید اور اس کے ہم نوا مذکورہ سنگین جرائم کے ذمہ دار ہیں یا نہیں اور کیا قاتلین حسین سے قصاص نہ لینے کی ذمہ داری یزید پر عائد ہوتی ہے یا نہیں وغیرہ اس دور کے صحابہ کرام اور تابعین عظام کا کام تھا یا یہ ذمہ داری اللہ نے سینکڑوں برس کے بعد کے مسلمانوں کے نازک کندھوں پر ڈال رکھی ہے ؟ اگر ڈال رکھی ہے تو قران وسنت سے وضاحت مطلوب ہے اور اگر نہیں ڈال رکھی تو ایسے فضول مباحث سے امت میں تفرقہ پیدا کرنے کی بجائے اللہ اللہ کرنا اور دوسروں کی نبٹانے کی بجائے اپنی نجات کا بندو بست کرنا ان فضول اور لایعنی مباحث کا بہترین متبادل نہیں ہے ؟ (۸) اگر اس دور کے ، جو خیر القرون کا بھی پہلا دور تھا، صحابہ کرام اور امام زین العابدین رح جیسے تابعین عظام مبینہ ظالمانہ حکومتی نظام کے سامنے اس قدر بے بس تھے کہ مصلحت پسندی پر اتر آئے تھے تو اس طرح کی متعلقہ قرآنی آیات کا مصداق اگر یہ لوگ نہیں تھے تو کیا فرشتے ان کا مصداق تھے ؟ مثلاً ارشاد ہے وانتم الاعلون ان کنتم مومنین۔ (۹)کیا خیر القرون میں شر کے مغلوب ہونے کا مطلب اس کا معدوم ہو جانا ہے ؟ اگر ایسا ہے تو مدنی دور نبوی کی اسلامی ریاست میں احد، بئر معونہ اور رجیع جیسے انتہائی المناک حوادث کیوں پیش آئے ؟ رسولﷺ کو ایک یہودی عورت نے ایام خیبر میں زہر دیا جس سے آپ عمر بھر تکلیف اٹھاتے ریے تو ایسا کیوں ہوا؟ کیا ان حوادث کی ذمہ داری (معاذ اللہ ثم معاذ اللہ) رسولﷺ اور آپ کے اصحاب پر ڈالی جائے گی یا کفار اور منافقین کو ان حوادث کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا؟ تو خیر القرون کے بعد کے ادوار میں ان حوادث کی ذمہ داری ارباب حکومت پر ڈالنے سے اگر وہ زمانہ خیر القرون کی بجائے معاذ اللہ شر القرون ٹھہرتا ہو اور صحابہ کرام کی نہی عن المنکر کی اعلیٰ ترین صلاحیت معاذ اللہ پیوند خاک ہوتی نظر آتی ہو، بہ الفاظ دیگر قران وسنت کے متعلقہ مضامین کے لازمی تقاضوں کی صاف صاف نفی ہوتی ہو، دشمنان اسلام کو خیر القرون کو بدنام کرنے کے مواقع فراہم ہوتے ہوں تو کیا عقلمندی کا تقاضا یہ نہیں یے کہ ان تمام حوادث کی تاریخی تفصیلات کو انتہائی مبالغہ آمیز بلکہ بیشتر کو جھوٹا قرار دیا جائے اور پھر ان کی ذمہ داری اس دور کے اہل بدعت سبائیوں پر ڈالی جائے جو بعد میں روافض و خوارج میں منقسم ہوئے ؟ کیا یہ تاریخی جزئیات کتب میں موجود نہیں ہیں کہ میدان کربلا میں سیدنا حضرت حسین نے یہ شرط بھی رکھی تھی کہ مجھے یزید کے پاس لے چلو ھو ابن عمی لاضع یدی فی یدہ کہ وہ میرا عم زاد ہے اور تاکہ میں اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دوں؟ تو یہ کہنا کیسے درست ہوا کہ آپ رضی اللہ عنہ نے جان دینا قبول کر لیا لیکن اپنا ہاتھ یزید کے ہاتھ میں دینا قبول نہ کیا؟ وہ تو ہاتھ دینا چاہتے تھے اس میں رکاوٹ تو شمر ذوالجوشن جیسے ان بد بختوں نے ڈالی تھی جو جھوٹے شیعہ تھے بلکہ سارے کوفی لا یوفی ایسے ہی تھے یہی شمر، علیہ ماعلیہ، جنگ صفین میں حضرت علی کے لشکر میں تھا۔ (۱۰) یزید کی مذمت میں جن اکابر کے اقوال پیش کیے جاتے ہیں تو جو اکابر قبروں میں چلے گئے ان سے مذکورہ اشکالات کاحل کیسے معلوم کیا جا سکتا ہے ؟ جو اکابر زندہ ہیں اور مذکورہ اشکالات کو دور کر سکتے ہیں تو یزید وغیرہ کی ایسی تیسی، ہمیں اس سے کوئی محبت نہیں یے ہمیں تو قران وسنت کے لازمی تقاضوں کو ملحوظ رکھنا ہے - جب ظنی روایات میں تعارض پیدا ہو تو اگر وجوہ ترجیح متعین ہی نہ ہو سکیں تو دونوں ہی ظنی دلیلیں ساقط ہو جائیں گی (اذاتعارضا تساقطا) اگر ایک دلیل کے مدارج صحت زیادہ ہوں مثلاً کسی یقینی دلیل کے لازمی تقاضوں سے وہ ہم آہنگ ہو تو اسے ترجیح دی جائے گی اور دوسری دلیل مرجوح اور متروک ہوگی- اب دیکھیے کہ صحابہ کرام کے غلبہ ونصرت کے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے اعلیٰ درجے پر فائز ہونے کی وجہ سے ان کے بہترین امت ہونے کے اور قرون ثلاثہ مشہود لھا بالخیر کی یہ خصوصیت کہ ان زمانوں کو غیرضروری اور جھوٹی قسموں اور گواہیوں سے محفوظ رکھا جائے گا، جیسے مضامین کے پیش نظر ہم لازماً یزید کی کم از کم اس حد تک تو تعدیل پر مجبور ہیں جس سے قرآن کے مضامین امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے اعلیٰ درجہ کو متعین کرنے والی احادیث اور خیر القرون کے بارے میں احادیث کی تکذیب لازم نہ آئے کیونکہ قرآن وسنت کے یہ مضامین باہم خوب مربوط ہیں- پس وہ روایات جن میں 60ھ میں فتنوں کے ظہور کی خبریں ہیں اگران کا کوئی ایسا صحیح مصداق معلوم ہوسکے جس سے خیر القرون کی خیریت اور صحابہ کرام کی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اعلیٰ صلاحیت وقدرت مجروح نہ ہو تو بہتر ورنہ اس طرح کی تمام ظنی روایات متروک اور کالعدم ہوں گی- اوپر واضح کیا جا چکا ہے کہ اخیار کی کثرت اور انکے غلبے کا مطلب اشرار کا سرے سے معدوم ہوجانا اور ان کے شر اور فتنے سے کلیةً محفوظ ہوجانا نہیں ہے ۔

    جواب نمبر: 177049

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:447-79T/N=7/1441

    التنقیح:۔یزید بن حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر آپ کے جو اشکالات ہیں، براہ کرم! وہ ایک، ایک یا زیادہ سے زیادہ تین، تین کرکے ارسال کریں، ایک ساتھ پوری کتاب لکھ کر نہ بھیجیں، ہمارے یہاں سے اصولی طور پر ایک ساتھ زیادہ سے زیادہ صرف تین سوالات کے جواب دیے جاتے ہیں۔ نیز ہر سوال میں اشکال بھی واضح کریں؛ تاکہ اشکال اچھی طرح سمجھ کر تشفی بخش اُس کا جواب دیا جاسکے۔

    اور آپ اپنا مذہب یا مسلک بھی واضح کردیں؛ تاکہ جواب میں اُس کا بھی لحاظ کیا جاسکے؛ کیوں کہ مستفتی کے مذہب یا مسلک کا علم نہ ہونے کی صورت میں بعض مرتبہ اُس کے لیے ہمارا جواب قابل قبول نہیں ہوتا اور معلوم ہونے کی صورت میں مسلمہ اصول کی رعایت کی کوشش کی جاتی ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند