متفرقات >> تاریخ و سوانح
سوال نمبر: 168742
جواب نمبر: 168742
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:650-694/L=7/1440
(۱) بعض احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزارانبیاء کرام تشریف لائے ہیں۔ عن أبی ذر رضی اللہ عنہ...ثم ذکر الحدیث إلی أن قال: فقلت: یا رسول اللہ، کم النبیون؟ قال: ”مائة ألف وأربعة وعشرون ألف نبی“ قلت: کم المرسلون منہم؟ قال: ”ثلاث مائة وثلاثة عشر“ وذکر باقی الحدیث(المستدرک علی الصحیحین للحاکم 2/ 652،الناشر: دار الکتب العلمیة بیروت)
(۲)یہ بات تو احادیث سے ثابت ہے کہ سب سے زیادہ تکلیف اور آزمائش انبیاء پر آتی ہے اور ان کو تکالیف ومصائب میں مبتلاکیا جاتا ہے ،اور یہ سب اللہ کی دین کی تبلیغ واشاعت کے لیے ہوتا ہے،اتنی بات درست ہے؛ البتہ اس مضمون کو مذکورہ بالا انداز میں بیان کرنا مناسب نہیں، یہ لوگوں میں تشویش کا باعث ہوسکتا ہے۔
عن مصعب بن سعد، عن أبیہ، قال: قلت: یا رسول اللہ، أی الناس أشد بلاء؟ قال: الأنبیاء ثم الأمثل فالأمثل، فیبتلی الرجل علی حسب دینہ، فإن کان دینہ صلبا اشتد بلاؤہ، وإن کان فی دینہ رقة ابتلی علی حسب دینہ، فما یبرح البلاء بالعبد حتی یترکہ یمشی علی الأرض ما علیہ خطیئة : ہذا حدیث حسن صحیح(سنن الترمذی: ۲/۶۵،رقم: 2398،باب ما جاء فی الصبر علی البلاء)
(عن أنس - رضی اللہ تعالی عنہ - قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: " لقد أخفت ") : مجہول ماض من الإخافة أی: خوفت (" فی اللہ ") أی: فی إظہار دینہ (مرقاة المفاتیح شرح مشکاة المصابیح ط؛ مطتبہ امدایہ: ۱۰/ ۱۶،باب فضل الفقراء وما کان من عیش النبی صلی اللہ علیہ وسلم)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند