• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 9055

    عنوان:

    اللہ کے فضل و کرم سے میں ایک سوفٹ ویئر انجینئر ہوں اور میری تنخواہ اچھی ہے۔ میں ایک مکان خریدنا چاہتا ہوں کیوں کہ یہ زندگی کی ضرورتوں میں سے ایک ہے۔ میں جانتا ہوں کہ سود کا دینا حرام ہے، او رمیں بینک سے مکان خریدنے کا طریقہ جانتا ہوں۔ (بینک مکان خریدتا ہے اس کے بعد اس کی قیمت میں سود کا اضافہ کرتا ہے اس کے بعد مجھے پوری قسط بینک کوادا کرنی ہوگی پراپرٹی کی قیمت کے طور پر)لیکن وہ صورت انڈیا میں ممکن نہیں ہی،نیز یہاں کوئی اسلامی بینک نہیں ہے۔ مزید برآں اگر میں پھر بھی لون لینے سے اجتناب کروں اور کرایہ پرہی رہوں تو میری تنخواہ کا ایک بڑا حصہ (مثلاً دس ہزارروپیہ) کرایہ پر خرچ ہوجائے گا اورمالک کسی بھی وقت مکان خالی کراسکتا ہے۔ اس صورت میں مجھے تکلیف کا سامنا ہوگا، اور اگرساتھ میں فیملی رکھوں گا تو اس وقت صورت حالمزید خراب ہوجائے گی۔ اس صورت میں کیا میں بینک سے سود پر لون لے سکتا ہوں؟ اگر لے سکتا ہوں تو، میں جانتا ہوں کہ مجھے جتنے لون کی ضرورت ہوگی اتنا ہی لینا ہوگا۔ برائے کرم مجھے?اتنا جتنے کی ضرورت ہے? کی تعریف بتادیں۔ کیوں کہ ضرورت تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ اگر کسی شخص کی چالیس ہزار روپئے ماہانہ تنخواہ ہے اور بینک زیادہ سے زیادہ 23لاکھ روپیہ تک لون دے سکتا ہے، تو وہ کتنا لون لے سکتا ہے، اس کی ضرورت 23 لاکھ میں پوری ہوجائے گی۔ اوراگر وہ اس رقم سے نیچے آتا ہے تو وہ اچھے محلہ میں جہاں وہ رہنا چاہتا ہے اچھا مکان نہیں لے سکتا ہے۔ یہ رقم اس علاقہ کے اعتبار سے جہاں وہ رہتا ہے بہت زیادہ کم ہے۔ برائے کرم اس معاملہ میں میری مدد کریں اور میرے سوال کا جواب دیں۔ میں آپ کا بہت زیادہ شکر گزار ہوں گا۔ جزاکم اللہ خیرا

    سوال:

    اللہ کے فضل و کرم سے میں ایک سوفٹ ویئر انجینئر ہوں اور میری تنخواہ اچھی ہے۔ میں ایک مکان خریدنا چاہتا ہوں کیوں کہ یہ زندگی کی ضرورتوں میں سے ایک ہے۔ میں جانتا ہوں کہ سود کا دینا حرام ہے، او رمیں بینک سے مکان خریدنے کا طریقہ جانتا ہوں۔ (بینک مکان خریدتا ہے اس کے بعد اس کی قیمت میں سود کا اضافہ کرتا ہے اس کے بعد مجھے پوری قسط بینک کوادا کرنی ہوگی پراپرٹی کی قیمت کے طور پر)لیکن وہ صورت انڈیا میں ممکن نہیں ہی،نیز یہاں کوئی اسلامی بینک نہیں ہے۔ مزید برآں اگر میں پھر بھی لون لینے سے اجتناب کروں اور کرایہ پرہی رہوں تو میری تنخواہ کا ایک بڑا حصہ (مثلاً دس ہزارروپیہ) کرایہ پر خرچ ہوجائے گا اورمالک کسی بھی وقت مکان خالی کراسکتا ہے۔ اس صورت میں مجھے تکلیف کا سامنا ہوگا، اور اگرساتھ میں فیملی رکھوں گا تو اس وقت صورت حالمزید خراب ہوجائے گی۔ اس صورت میں کیا میں بینک سے سود پر لون لے سکتا ہوں؟ اگر لے سکتا ہوں تو، میں جانتا ہوں کہ مجھے جتنے لون کی ضرورت ہوگی اتنا ہی لینا ہوگا۔ برائے کرم مجھے?اتنا جتنے کی ضرورت ہے? کی تعریف بتادیں۔ کیوں کہ ضرورت تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ اگر کسی شخص کی چالیس ہزار روپئے ماہانہ تنخواہ ہے اور بینک زیادہ سے زیادہ 23لاکھ روپیہ تک لون دے سکتا ہے، تو وہ کتنا لون لے سکتا ہے، اس کی ضرورت 23 لاکھ میں پوری ہوجائے گی۔ اوراگر وہ اس رقم سے نیچے آتا ہے تو وہ اچھے محلہ میں جہاں وہ رہنا چاہتا ہے اچھا مکان نہیں لے سکتا ہے۔ یہ رقم اس علاقہ کے اعتبار سے جہاں وہ رہتا ہے بہت زیادہ کم ہے۔ برائے کرم اس معاملہ میں میری مدد کریں اور میرے سوال کا جواب دیں۔ میں آپ کا بہت زیادہ شکر گزار ہوں گا۔ جزاکم اللہ خیرا

    جواب نمبر: 9055

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 2251=1845/ ب

     

    سود لینا دینا حرام ہے، ایسے شخص پر حدیث شریف میں لعنت آئی ہے، حد درجہ مجبوری میں لیا جاسکتا ہے، مثلاً: بھوک سے جان جانے کا قوی اندیشہ ہو، یا عزت کا قوی خطرہ ہے، آپ نے جو صورت لکھی ہے وہ صورت مجبوری کی نہیں ہے، سہولت کی ہے پس آپ کے لیے سودی لون لینا جائز نہیں ہے، کسی دوسرے ذریعہ سے گھر لے لیں۔ نیز ضرورتیں مختلف ہوتی ہیں، اور ضرورت کی کوئی حتمی تعریف نہیں ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند