• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 68535

    عنوان: موجودہ دور میں عام ہوچکا، دکاندار لوگ مر غی کو شرعی اعتبار سے صاف کرتے نہیں، کھانا حلال ہے یا حرام صرف ان دو اعتبار سے شرعی حکم مطلوب ہے ؟

    سوال: موجودہ دور میں عام ہوچکا، دکاندار لوگ مر غی کو شرعی اعتبار سے صاف کرتے نہیں، کھانا حلال ہے یا حرام صرف ان دو اعتبار سے شرعی حکم مطلوب ہے ؟

    جواب نمبر: 68535

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 939-937/Sd=11/1437 مرغیوں کی صفائی کے لیے اُن کو ذبح کرنے کے بعد چونکہ گرم پانی میں ڈالا جاتا ہے، جس میں بسا اوقات مکمل صفائی ہوجاتی ہے اور بعض صورتوں میں صفائی نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے بسا اوقات مرغی کا کھانا حرام ہوجاتاہے، اس لیے اس کی مکمل تفصیل ملاحظہ فرمائیں: مرغی کے مکمل ٹھنڈا ہونے سے پہلے بال صاف کرنے کے لیے گرم پانی کے مرحلے سے گذارنا مکروہ ہے؛ البتہ مکمل ٹھنڈا ہونے اور روح نکلنے کے بعد پروں کو جھاڑنے اور صاف کرنے کے لیے گرم پانی میں ڈال سکتے ہیں، جس کی چند صورتیں ہیں اور ہر صورت کا حکم الگ الگ ہے: (۱) اگر ذبح کرنے کے بعد آلائش نکال کر اور دمِ مسفوح ٹھنڈے پانی سے اچھی طرح دھوکر گرم پانی میں ڈالا، پھر اُس کے بعد پَر وغیرہ اُکھاڑ لیا، تو شرعاً اُس میں نہ کوئی ناپاکی ہے اور نہ کوئی کراہت۔ (۲) اگر ذبح کرنے کے بعد آلائش نکالی؛ لیکن دمِ مسفوح جو گردن پر لگا ہوا تھا اُس کو پاک نہیں کیا، اور اسی حالت میں ہلکے گرم پانی میں ڈال دیا، تو ایسی صورت میں پاک کرنے کے بعد اُس مرغ کو استعمال کرنا جائز ہوجائے گا۔ (۳) اگر ذبح کرنے کے بعد آلائش نہیں نکالی اور اِسی طرح تیز کھولتے ہوئے پانی میں ڈال دیا؛ لیکن اتنے کم وقت کے لئے ڈالا کہ پانی کا اثر صرف کھال تک پہنچا، گوشت تک سرایت نہیں کیا، تو اِس صورت میں بھی اوپر سے اچھی طرح دھونے اور آلائش نکالنے کے بعد گوشت کا استعمال کرنا درست رہے گا۔ (۴) اگر ذبح کرنے کے بعد آلائش نہیں نکالی یا بغیر دھوئے اِس قدر تیز گرم پانی میں دیر تک ڈالے رکھا کہ اُس نجاست کے اثرات گوشت میں پہنچ گئے، تو اِس صورت میں نجاست سرایت کرنے کی وجہ سے گوشت ناپاک ہوجائے گا، اور اِس کا استعمال کسی طرح درست نہ ہوگا۔ اور اگر مرغی کو ذبح کرنے کے بعد گرم پانی میں ڈالا ہی نہیں، تو اُس کی آلائش نکالنے اور دم مسفوح کو اچھی طرح دھونے کے بعد مرغی کا کھانا جائز ہے۔ وقال المرغیناني: ان مافیہ زیادة ایلام لا یحتاج الیہ في الذکاة؛ مکروہ۔ وقال في الہندیة: ویکرہ لہ بعد الذبح قبل أن تبرد أن ینخعہا۔ ۔ ۔ وأن یسلخہا قبل أن تبرد۔ ۔ (الفتاوی الہندیة: ۵/ ۳۳۱، کتاب الذبائح، الباب الأول، ط: اتحاد، دیوبند) وکذا دجاجةٌ مُلقاةٌ حَالَّةٌ علی الماء لِلنَّتفِ قبل شقہا (الدر المختار) قال الشامي: لکن علی قول أبي یوسف تطہرُ، والعلة - واللّٰہ أعلم - تشربہا النجاسة بواسطة الغلیان، وعلیہ اُشتُہرَ أن اللحم السمیط بمصر نجس، لکن العلة المذکورة لا تثبت ما لم یمکث اللحم بعد الغلیان زمانًا، یقع في مثلہ التشرب والدخول في باطن اللحم، وکل منہما غیر متحقق في السمیط حیث لا یصل إلی حد الغلیان، ولا یترک فیہ إلا مقدار ما تصل الحرارة إلی ظاہر الجلد لتنحلَّ مسامُّ الصوف؛ بل لو ترک یمنع انقلاع الشعر۔ (الدر المختار مع الشامي / باب الأنجاس ۱/ ۵۴۴ زکریا) وقال ابن الہمام: ولو ألقیت دجاجة حال الغلیان في الماء قبل أن یشق بطنہا لتُنتَفَ أوکَرِشٌ قبل الغسل لایطہرُ أبدًا، لکن علی قول أبي یوسف یجب أن یُطہَّر علی قانون ما تقدم في اللحم، قلت: وہو - سبحانہ أعلم - ہو معلل بتشربہما النجاسةَ المتخللة بواسطة الغلیان، وعلی ہٰذا اشتہر أن اللحم السمیط بمصر نجس لا یطہَر، لکن العلة المذکورة لا تثبت حتی یصل الماء إلی حد الغلیان، ویمکث فیہ اللحم بعد ذٰلک زمانًا یقع في مثلہ التشرب والدخول في باطن اللحم، وکل من الأمرین غیر متحقق في السمیط الواقع، حیث لا یصل الماء إلی حد الغلیان، ولا یترک فیہ إلا مقدار مَا تَصِلُ الحرارة إلی سطح الجلد، فتنحل مسام السطح من الصوف بل ذلک الترک یمنع من وجودہ انقلاع الشعر، فالأولی في السمیط أن یطہر بالغَسل ثلاثا لِتَنَجُّسِ سطح الجلد بذلک الماء؛ فإنہم لا یحترسون فیہ من المنجس، وقد قال شرف الأئمة بہذا في الدجاجة والکَرِشِ، والسمیطُ مثلہما۔ (فتح القدیر / باب الأنجاس وتطہیرہا ۱/ ۲۱۰، البحر الرائق / باب الأنجاس ۱/ ۲۳۹، کذا في درر الحکام شرح غرر الأحکام ۱/ ۴۵ حاشیة الطحطاوي علی مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح ۱/ ۱۶۰) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند