عنوان: دکاندار گاہک سے جس قدر رقم بڑھا کر لے گا اس اضافی رقم کا آدھا ایجنٹ کو ملے گا اس طرح معاملہ کرنا كیسا ہے؟
سوال: ہماری فرنیچر کی دکان ہے اور ہم اپنا سامان ایک مناسب قیمت پر بیچتے ہیں، چونکہ یہ دکان ہے ، شوروم نہیں ، اس لیے یہ زیادہ مشہور نہیں ہے، عام طورپر لوگ شوروم سے فرنیچر خریدتے ہیں۔ شو روم کاایجنٹ اپنے گاہک کو ہماری دکان پر لاتاہیتاکہ ہم سبھی ( ہم دکان والے، ایجنٹ ار گاک) کو فائدہ ہو۔ ہم ایک سامان پانچ ہزار وپئے میں بیچتے ہیں اور اسی سامان کی قیمت شوروم میں بیس ہزاروپئے ہے، اس لئے شوروم کاایجنٹ ہماری دکان میں گاہک لاتاہے اور ہم یہ سامان دس ہزار روپئے میں بیچتے ہیں، اس صورت میں گاہک کو آدھا فائدہ ہوتاہے اور بقیہ منافع میں ہم دکان والے اور ایجنٹ میں شریک ہوتے ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح سے یہ کاروبار کرنا اور نفع کمانا جائز ہے؟اگر ہم ایجینٹ کو کچھ نہ دیں تو ہم تینوں (ہمیں، ایجنٹ اور پارٹی) کو نقصان ہوگا۔ براہ کرم، جواب دیں۔
جواب نمبر: 6846330-Aug-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 963-863/D=12/1437
اگر ایجنٹ کا معاملہ دکاندار سے پہلے سے طے ہے کہ ہم لوگ گاہک لائیں گے ایک گاہک پر متعین طور پر مثلا پانچ سو یا ہزار روپئے لیں گے یا اس طرح طے ہو کہ گاہک جو خریداری کرے گا اس پر 10% یا 20% ایجنٹ کو ملے گا اس طرح کرنا درست ہے، اور سوال میں جو طریقہ لکھا ہے کہ دکاندار گاہک سے جس قدر رقم بڑھا کر لے گا اس اضافی رقم کا آدھا ایجنٹ کو ملے گا اس طرح معاملہ کرنا صحیح نہیں اور ایجنٹ کو اس طریقہ سے نفع حاصل کرنا جائز نہیں البتہ دکاندار نے زاید قیمت پر جو فروختگی کی ہے اگر اس میں کسی قسم کا دھوکہ اور جھوٹ کا ارتکاب نہیں کیا ہے تو دکاندار کے لیے پورا نفع جائز ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند