• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 6785

    عنوان:

    میں ممبئی میں وکالت کی پریکٹس کرتا ہوں۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا وکالت کرنا حرام ہے؟ (۲) ممبئی میں میری ایک عمارت ہے کیا میں یہعمارت بینک کو کرایہ پر دے سکتا ہوں اورکیا اس کرایہ کی آمدنی حرام ہوگی؟ (۳) کیا میں میڈیکل انشورنس میں سرمایہ کار کر سکتا ہوں جیسے میڈی کلیم، مستقبل کی حفاظت کے لیے اور صرف میڈیکل بل ادا کرنے کے لیے اور میڈیکل ایمرجنسی کی صورت میں؟

    سوال:

    (۱) میں ممبئی میں وکالت کی پریکٹس کرتا ہوں۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا وکالت کرنا حرام ہے؟

    (۲) ممبئی میں میری ایک عمارت ہے کیا میں یہعمارت بینک کو کرایہ پر دے سکتا ہوں اورکیا اس کرایہ کی آمدنی حرام ہوگی؟

    (۳) کیا میں میڈیکل انشورنس میں سرمایہ کار کر سکتا ہوں جیسے میڈی کلیم، مستقبل کی حفاظت کے لیے اور صرف میڈیکل بل ادا کرنے کے لیے اور میڈیکل ایمرجنسی کی صورت میں؟

    جواب نمبر: 6785

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 714=714/ م

     

    (۱) وکالت کرنا علی الاطلاق حرام و ناجائز نہیں ہے۔ سچے اورجائز مقدمات کی پیروی کرنا اور صاحب حق کو حق دلانے کی نیت سے وکالت کرنا جائز اور درست ہے۔ اور ناحق، غلط اور جھوٹے مقدمات کی وکالت کرنا، ناجائز ہے۔

    (۲) اپنی عمارت، بینک کو کرایہ پر نہ دیں، اس کے کرایہ پر اگرچہ بالکلیہ حرام ہونے کا حکم نہیں لیکن کراہت سے خالی بھی نہیں۔

    (۳) میڈیکل انشورنس میں سرمایہ کاری کی صورت کیا ہوتی ہے؟ پوری وضاحت کی جائے تو حکم لکھا جاسکتا ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند