متفرقات >> حلال و حرام
سوال نمبر: 67643
جواب نمبر: 67643
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1131-1142/N=11-1437 ڈاکٹر لوگ لیب یا میڈیکل اسٹور والوں سے مریض بھیجنے پر یا میڈیکل اسٹور والوں کی دوائیاں لکھنے پر جو کمیشن لیتے ہیں ، یہ شرعاً کسی ایسے عمل کا عوض نہیں ہے جس پر عوض لینا جائز ہو؛ بلکہ یہ رشوت وناجائز ہے ، کسی زمانے میں حکیم لوگ دوائی لکھنے پر عطار (دوائی فروش) ۲۵/ فیصد یا اس سے کم وبیش کمیشن لیتے تھے ، ہمارے حضرات اکابر علمائے دیوبند نے اپنے فتاوی میں اسے رشوت اور ناجائز قرار دیا، لأن الدلالة والإشارة لیست بعمل یستحق بہ الأجر (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الإجارة ۹: ۱۳۰ - ۱۳۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ، وکذلک إذا قال ھذا القول لشخص معین فدلہ علیہ بالقول بدون عمل فلیس لہ أجرة؛ لأن الدلالة والإشارة لیستا مما یوٴخذ علیھما أجر (درر الأحکام شرح مجلة الاحکام، کتاب الإجارة، الباب الثاني، الفصل الثالث في شروط صحة الإجارة ۱: ۵۰۲، ۵۰۳) ، في شرح الطریقة المحمدیة للخادمي، الجزء الرابع منہ عن لب الأحیاء: وأما إعانتہ علی عمل معین - إلی قولہ: - أو مباحاً فیہ تعب بحیث یجوز الاستئجار علیہ حل أخذہ، وھو جعل (امداد الفتاوی، ۳: ۳۶۲ ، سوال: ۳۳۳، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند) ، نیز فتاوی رشیدیہ (ص ۵۵۸، مطبوعہ: گلستاں کتاب گھر، دیوبند) ، فتاوی دار العلوم دیوبند (۱۷: ۳۵۴، سوال: ۱۷۶۴، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند) اور امداد الفتاوی (۳: ۴۱۰، سوال: ۴۱۳) دیکھیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند